یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی1989 کا سال اور وفاقی کابینہ کا اجلاس جس کے ایجنڈے میں گوشت کا ناغہ(منگل‘ بدھ) ختم کرنے پر غور کیاگیا اس پر اس وقت اپوزیشن مسلم لیگ کے مرکزی رہنما شیخ رشیداحمد نے طنز کیا تھا کہ جس کابینہ کے ایجنڈے میں گوشت کے ناغے پر بحث کی جائے اس کی ذہنی اپروچ اور معیار کیا ہوگا یہ بات گزشتہ روز کے وفاقی اجلاس اور اسکے ایجنڈے کو دیکھ کر یاد آئی جس میں مرکزی نکتہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کو برطانیہ سے واپس لانے کے طریقوں پر بحث تھی ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ قومی سطح پر حکومت کو خارجی اور داخلی طور پر کن کن مسائل کا سامنا ہے دنیا ہم سے کیا چاہتی ہے اور عوام کا مطالبہ کیا ہے لیکن اگر کوئی بات پریشانی کا باعث ہے تو وہ نوازشریف کی واپسی ہے حالانکہ یہ صرف وزارت داخلہ کا کام ہے وہ عدالتوں سے آرڈر لے انٹرپول یا برطانوی وزارت دخلہ سے رابطہ کرے اور نواز شریف‘ بلکہ پرویز مشرف‘ اسحاق ڈار‘ الطا ف حسین اور شریف فیملی کے جوانوں کو واپس لانے کی کوشش کرے اسحاق ڈار اور الطاف حسین کیلئے تو ایسی کوشش کی جاچکی ہے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ نوازشریف نے کرپشن کی ہے یا نہیں لیکن دو حقیقتیں بالکل واضح ہیں پہلی یہ کہ وہ پاکستانی عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں اور علاج کیلئے ضمانت پر برطانیہ گئے ہیں اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی موثر سیاسی قوت ہیں ، ان کے حامی ان کو بے گناہ سمجھتے ہیں اور ان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے آرزو مند ہیں اب ان لوگوں کو کوئی بھی نام دی جائے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اور تجزیہ کار تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نوازشریف کی پاکستان کی کسی جیل میں موجودگی‘ حکومت کیلئے زیادہ بھاری ثابت ہوگی بلکہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بقول نوازشریف کو برطانیہ جانے کی اجازت دینے کے اجلاس میں سب سے بلند ہاتھ شیخ رشید کا ہی کھڑا ہوا تھا شیخ رشید کا صائب موقف تھا کہ نوازشریف کو باہر بھیج کر اس سے جان چھڑائی جائے اور یہی سیاسی لحاظ سے درست موقف تھا۔
جہاں تک برطانیہ سے مجرموں کی واپسی کا تعلق ہے تو ہماری کسی حکومت نے برطانیہ کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے کی کوشش نہیں کی اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ ہی ہماری سیاسی اشرافیہ کی جائے پناہ ہے اور سب نے اپوزیشن میں آنے کے بعد نا گفتہ بہ حالات میں برطانیہ جانا ہوتا ہے ‘ بہرحال بات نواز شریف کی ہورہی ہے اور ان کے خلاف نیب کے کئی ریفرنس عدالتوں میں اب بھی زیرسماعت ہیں ان کی حیثیت ضمانت پر رہا مجرم کی ہے یا مفرور مجرم کی یہ بھی ابھی عدالت نے طے کرنا ہے کم از کم یہ ایسا ایشو نہیں ہے جس پر زیادہ بحث و مباحثے کی ضرورت ہو۔ پاکستان کی سیاست کا یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں شخصیات اوروراثت چلتی ہے قیادت کی مقبولیت میں کردار کو نہیں دیکھا جاتا آج بھی پیپلز پارٹی کے بزرگ سیاسی قائدین بلاول بھٹو آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں آج بھی مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما بھی مریم نواز کے آگے رائے دینے کی جرات نہیں کر سکتے کچھ ایسا ہی حال باقی جماعتوں کا بھی ہے یہ ایک المیہ ہے لیکن زمینی حقیقت بھی ہے اس کو تبدیل کرنے کیلئے سیاسی شعور کی ضرورت ہے جو ابھی سیاسی پارٹیوں میں نہیں ہے فی الحال حکومت کو ان حقائق کے ساتھ رہ کر فیصلے کرنا ہونگے۔یہ حقیقت ہے سیاست کی دنیا میں کوئی بات اور فیصلہ حرف آخر نہیں ہوتا آج کے دوست کل کے مخالفین ہو سکتے ہیں اور آج جو مخالفت میں سب سے آگے ہیں وہ ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ہمیشہ مفاہمت کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت جو صورتحال ہے ا س میں لگتا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں طرف سے جذبات انتہاﺅں پر ہیں اور ایک دوسرے کیلئے نرم گوشہ تقریباً ختم کر دیا گیا ہے جو سیاست کی دنیا میں کوئی مناسب رویہ نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست میں برداشت اور تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے اور مفاہمت کے دروازوںکو بند نہیں کرناچاہئے۔