ملک ایک ایسی وبا کی زد میں ہے کہ جوابھی تک تو لا علاج ہے ۔ صرف پرہیز کو ہی اس کا علاج کہا گیا ہے اور پرہیز یہ ہے کہ جتنا آپ خود کو اپنے کمرے تک محدود رکھیں گے تو اتنا ہی اس بلا سے محفوظ رہیں گے۔ مگر کیا کیا جائے کہ نظام زندگی گھروں میںقید ہو کر تو نہیں چل سکتا۔ اس میں سب سے زیادہ اگر کو ئی محکمہ متاثر ہو ا ہے تو وہ محکمہ تعلیم ہے ۔ اس کا براہ راست تعلق ہماری نئی پود کے ساتھ ہے۔ وبا ایسی ہے کہ یہ لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا مجمع دیکھ کر حملہ آور ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں تعلیمی ادارے سب سے زیادہ اور سب سے آسان ہدف ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے اس میں طلبا کا اکٹھا ہونا تو لازمی ہوتا ہے۔ اسی لئے حکومت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ ان اداروں کو کھول دے اور بچوں کو اس وبا کے حوالے کر دے ۔ موجودہ سال کے تیسرے مہینے سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور اب آٹھواں مہینہ ہے یعنی گزشتہ پانچ ماہ سے تعلیمی سرگرمیاںصفر ہیں۔ ان پانچ مہینوں میں حکومت نے کچھ ایسے اقدام کئے ہیں کہ بچوں کی آن لائن پڑھائی ممکن ہو سکے مگر صورت حال یہ ہے کہ جس ملک میں نوے فی صد لوگوں کے پاس بجلی اور کمپیوٹر کی سہولیات ہی نہیں ہیں وہاں آن لائن پڑھائی کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ اس طرح سے بچوں کا جو وقت اس وبا نے ضائع کیا ہے اس کا کیا ہو گا۔یوں تو پڑھی لکھی مائیں اپنے بچوں کو مصروف رکھے ہوئی ہیںمگر جو بات اداروں میں ہو سکتی ہے وہ ماو¿ں سے ممکن نہیں ہے۔ اور پھر کتنی مائیں ہوںگی جو اپنے بچوں کو پڑھا سکتی ہوں گی یا کتنے باپ ہوںگے جو اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے وقت نکال سکتے ہوں گے۔
جو بچے دیہاتوں میں رہتے ہیں ان کو تو چھٹیوں کا کام کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے اور جہا ں اچانک ہی اداروں کو بند کر دیا گیا ہو اور اساتذہ کو اتنا وقت بھی نہ ملا ہو کہ طلبا ءکو ہدایات ہی دے سکتے تو وہاں کاحال تو ناگفتہ بہ ہی ہو گا اور ہے۔ طلباءنے جو کچھ مارچ تک سیکھا ہے اور پڑھا ہے جویقیناً نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے کہ کچھ اداروں نے امتحان لے کر کلاسیں تبدیل ہی نہیںکیں کہ ادارے بند ہو گئے ہیں اور بہت سوں کو تو امتحان لینے کا موقع بھی نہیں ملا ہو گا اس لئے کہ عموماً مارچ اپریل سالانہ امتحانات کے مہینے ہوتے ہیں او راسی دوران نئی کلاسیں شروع ہوتی ہیں مگر بچوں کو نئی کلاسوں میں بیٹھنے کا بھی موقع نہیں ملا اور کورونا نے حملہ کر دیا۔ اب سمجھ نہیں آتی کہ ان بچوں کا کیا بنے گا۔ حکومت نے بہت سی کلاسوں میں بغیر امتحان لیے ہی طلباءکوپروموٹ کر دیا ہے جس کی کمی طلباءساری عمر محسوس کریں گے اس لئے کہ پڑھائی کا سلسلہ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک اور دوسری جماعت کے سلیبس ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور اگر ایک بڑا وقفہ درمیان میں آ جائے تو وہ پھر پورا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
مگر حالات ایسے ہیں اور تھے کہ ایسا کرنا ناگزیر تھا لیکن اگر کچھ ایسا بندوبست ہو سکے کہ موجودہ کلاسوں میں کچھ نہ کچھ سابقہ کلاسوںکے بنیادی نقاط بھی سمجھا دیئے جائیں تو شائد کچھ کمی پوری ہو پائے۔ تا ہم اس کا ماہرین تعلیم کچھ نہ کچھ بہتر حل نکال سکتے ہیں ۔ چونکہ اگر کسی بھی سیڑھی پر دو تین سیڑھیاں چھوڑ کر اوپر چڑھنا ہو تو یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے او ر تعلیم میں تو نصاب کی اس طرح سے تدوین کی جاتی ہے کہ ایک جماعت کاکام دوسری جماعت کی بنیاد ہوتا ہے اور اگر بنیاد کو چھوڑ کر عمارت تعمیر کی جائے تو اس کا کھڑا رہنا ممکن نہیںرہتا۔ بہر حال جس طرح ا یک ایمرجنسی کی صورت حال درپیش تھی اس کےلئے کچھ نہ کچھ علاج تو ڈھونڈا جا ہی سکتا ہے۔ اب جو بغیر ایک سلیبس کو پڑھائے بچوں کو اگلی کلاسوں میں بھیج دیا گیا ہے تو اسکی کمی کو پورا کرنے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ بندوبست ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ایک حل تو یہ ہے کہ اساتذہ خود پر کچھ بوجھ ڈالیں اور ایک دو ایکسٹرا کلاس خصوصاً انگلش ،ریاضی اور سائنس کے ضروری امورکے لئے جائیں تو شاید کچھ نہ کچھ کمی پوری ہو سکے‘ہم خود چونکہ ان مراحل سے گزرے ہیںاور ایکسٹرا کلاسزلے کر طلباءکی کمی پوری کرتے رہے ہیں اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ اساتذہ اگر چاہیں تو بچوں کی تعلیمی کمی کو پورا کر سکتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں یہ بہت ضروری ہے۔