صبح سویرے مسجد سے فجر پڑھ کر اورتلاوت کر کے جب ہم گھروں کو لوٹتے تو گلی کے کم و بیش ہر گھر سے تلاوت ِ قرآنِ عظیم الشان کی آوازیں آ رہی ہوتیں، ایک دو گھر تو ایسے تھے کہ قدم خود بخود سست پڑجاتے، میں ان خواتین کو جانتا تھا جن کی خوش الحانی راہ چلتوں کو روک لیتی تھی اور میں کیا سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب گاو¿ں میں کوئی بھی گلی ایک گھر کی طرح ہوا کرتی تھی،ہمارے علاقے میں دو مسجدیں تھیں ایک گلی کے اند ر چند قدم کے فاصلے پر مسجد قریشیاں اور ایک ہماری گلی اور ”خانوں کی گڑھی“ کے سنگم پر تھی، جو مسجد خانان کہلاتی تھی، یوں تو اس مسجد سے صرف چند گز کے فاصلے پردریا کے کنارے ایک اور مسجد بھی تھی مگر وہ بغیر چھت کے تھی محض چھوٹی سی چاردیواری اور بے کواڑ دروازہ والی اس مسجد کی اصل خوبصورتی دریا میں اترتی سیڑھیاں تھیں جو موسم سرما میں تو سب نظر آتیں مگر موسم گرما میں پانی چڑھنے پر ایک ایک سیڑھی ڈوبتی اور ہم خشک سیڑھی پر بیٹھ کر ڈوبی ہوئی سیڑھی تک ٹانگیں ڈبوئے گھنٹوںگپیں ہانکتے یوں ہر روز ایک ایک سیڑھی اوپر ہوتے اور پھر جب دریا پانی سے بھر جاتا تو مسجدکی ساری سیڑھیاں ڈوب جاتیں پانی مسجد کے صحن میں آ جاتا اور ہم مسجد کی دیواروں پر بیٹھ کر حد نظر تک پھیلے تیز رفتار پانی میں بہتی ہوئی اشیا ءکو دیکھتے جن میں زیادہ تر درختوں کی شاخیں اور لکڑیاں ہو تیںجو نہ جانے کہاں سے تیرتی ہوئی آ رہی ہوتیں، لیکن اس مسجد میں با جماعت نماز کا باقاعدہ اہتمام نہیں ہوتا تھا تاہم دریا پر آئے ہوئے دو چار لوگ اکٹھے ہو جاتے تو عصر یا شام کی نماز با جماعت ادا کی جاتی، میری یاداشت میں ایک رمضان المبارک میں یہاں تراویح کا اہتمام ہوا تھا ہم بہت چھوٹے تھے۔
اس لئے رات کے وقت دریا کے کنارے کی مسجد تک تو نہیں جاسکے مگر جس شب تراویح میں ختم القران تھا،اس دن صبح ہی مسجد کو سجایا سنوارا جا رہا تھا اور بڑوں کا ہاتھ بٹانے ہم گلی کے دو چار بچے بھی مسجد میں تھے، میں بہت پر جوش تھا کیونکہ ہمیں اس رات اس مسجد میں تراویح پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی، اجازت ملنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے حافظ قرآن چچا مرحوم سید نور بادشاہ نے یہ سارا اہتمام و انصرام کیا تھا اور وہی امامت بھی فرما رہے تھے، ان کو ہی خیال آیا تھا کہ اس مسجد میں تراویح میں ختم القرآن کا اہتمام کیا جائے ایسے کاموں میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے اور یہ جو اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ ہے جس سے فیض حاصل کرنے والوں کی تعداد کروڑوں سے بھی زیادہ ہے، اس کے بنانے میں استاد محترم شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نور اللہ مرقدہ کو جن چار یا پانچ عزیز از جان دوستوں کا ساتھ میسر رہا ان میں سے ایک میرے یہی چچا بھی تھے اور جو اس عظیم درسگاہ کے احاطہ میں مولانا عبدالحق کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں، خیر جس رات ختم القران تھا اس دن مسجد کی صرف ایک سیڑھی نظر آ رہی تھی باقی سب پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں ،ہمیں شدت سے رات کا انتظار تھا، اس دن میں نے یہاں ظہر اور عصر بھی با جماعت ادا کی پھرافطاری کے لئے گھر چلا گیا واپس آیا تو کیروسین آئل کے لیمپوں سے مسجد جگمگا رہی تھی، مجھے نہیں معلوم اس سے پہلے یا بعد میں کبھی یہ مسجد اس طور آباد ہوئی یا نہیں مگر اس رات کی روشن یادیں اور بزرگوں کے مہربان چہرے اب بھی آنکھوں میں دھواں بھر دیتے ہیں۔
خیر میں مساجد کی بات کررہا تھا کہ جب مسجد قریشیاں سے فجر پڑھ کر آتے تو قران عظیم الشان کی کانوں رس گھولتی تلاوت روک روک لیا کرتی، لیکن جس دن گڑھی کی مسجد جاتے وہاں نماز اور تلاوت کے بعدخانوں کی گڑھی کے ایک مہربان بزرگ کے گھر سے چائے اور گرم پراٹھے آ جاتے جو سردیوں کی یخ بستہ صبحوں کو ایک دل خوش کن آغاز سے ہم کنار کرتے، مگر دیر ہو جانے کی وجہ سے اس دن گلی میںگونجنے والی خوش الحان تلاوت سے محروم ہو جاتے، ہمارے گھروں میںقرآن پاک کی تلاوت اور نعت رسول کریم کے ساتھ ساتھ جو چیز بہت مقبول تھی وہ ” جنگ نامے “ تھے، جسے گھرکا کوئی فرد پر سوز آواز میں پڑھتا اور باقی لوگ اسے سنتے اور چپکے چپکے آنسو بہاتے، ویسے تو سارا سال یہ جنگ نامے پڑھے جاتے مگر ایام محرم میں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا،میری بڑی ہمشیرہ نے جنگ نامے سن سن کر نہ صرف انہیں پڑھنے میں بھی بہت مہارت حاصل کر لی تھی بلکہ جلد ہی شعر بھی کہنے لگیں تھیں، ان کی طبعزاد پشتونظمیں فیملی میں مشہور ہوئیں،خصوصا ًجب وہ کسی عزیز کے بچھڑنے پر مرثیہ لکھتیں اور بھرے آنگن میں کرسی یاچارپائی پر کھڑے ہو کر پڑھتیں توسننے والوں کی ہچکیاں بندھ جاتیں، وہ کوئی تین ساڑھے تین برس مجھ سے بڑی تھیں مجھے پہلے پہل ا ن سے یہ فائدہ تھا کہ ان کے لئے پشاور سے بڑے بھائی سید پیر محمد شاہ جب بچوں کے رسائل ”کھلونا، تعلیم و تربیت اور بچوں کی دنیا “لاتے تو مجھے ان سے نظمیں کہانیاں سناتیں اور بعد کے زمانوں میں ان کی سہیلی کے بھیجے ہوئے خواتین کے رسائل بھی پڑھنا شروع ہو گیا تھا پھر میں نے بڑے بھائی سید اعجاز بخاری جو پشتو زبان کے معروف شاعر تھے کی کتابوں سے ایم اسلم کا ناول ’ چشم لیلیٰ ‘ چرا کر پڑھاتھا، خیر ذکر گھروں میں پڑھے جانے والے جنگ ناموں کی ہو رہی تھی کہ بچپن ہی سے شعر سے شغف ہو چلا تھا، ایام محرم میں والدہ مرحومہ باقی لوگوں کی طرح کھیر بھی بناتیں اور گڑ کا شربت بھی بناتیں۔
، ہم بڑے برتن میں شربت لے کر صبح کے وقت دروازہ میں بیٹھ جاتے اور گلی میں آنے جانے والوں کو شربت پلاتے اور جب بھی موقع ملتا خود بھی پیتے، اور شام کو مٹی کے چھوٹے پیالوں میں شربت اور مٹی ہی کے چھوٹے برتن میں کھیر ڈال کر ٹرے میں رکھ کر اڑوس پڑوس میں بھی جا کر دیتے اور گلی کے بچوں کو بھی دیتے، کھیر اور گڑ کا شربت تب سے مجھے بہت پسند ہے کہ اسے پیتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے اپنی والدہ مرحومہ کا شفیق اور مہرباں چہرہ آ جاتا ہے جو بہت کم آمدنی والے دنوں میں محرم اور ربیع الاوّل کے بانٹے جانے والے پکوان بڑی مقدار میں بناتی اور فراخ دلی سے یہ کہتے ہوئے بانٹتی کہ اسی کی وجہ سے تو ہمارے رزق میں برکت ہو تی ہے۔ ان ایام میں تین دن بڑے بھائی سید اعجاز بخاری سائیکل پربیٹھ کر شہر خموشاں جاتے اور مجھے اور چھوٹے بھائی سید ناظم علی شاہ کو بھی لے جاتے، وہاں وہ قبروں کو نئے سرے سے ٹھیک کرتے ،ریت بجری ڈالتے اور سرہانے کی طرف پانی ڈال کر ہمیں شہدائے کربلا کی پیاس کا ذکر کرتے اور اس سانحہ کے واقعات سناتے تھے۔ ہم کئی گھنٹے قبرستان میں رہتے اور جب بھوک لگتی تو سائیکل کے ہینڈل سے لٹکی ہوئی پوٹلی کھول کر لاتے اور کسی درخت کی چھاو¿ں میں بیٹھ کر اسے کھولتے اس پوٹلی میں والدہ مرحومہ نے روٹی،گڑ اور پیاز باندھا ہوتا، حلفیہ کہتا ہوں کہ اس کے بعد سے اب تک ایسا یادگار اور شاندار لنچ پھر نصیب نہیں ہوا اور جس کا ذائقہ ابھی تک یاد ہے اور یوں تو وہ سارا منظر نامہ اور شہدائے کربلا کی محبت اور عقیدت سے شرابور مہربان چہرے ہمیشہ آنکھیں بھگو تے رہتے ہیں ،لیکن ایام محرم الحرام میں تو دل کا سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
دئیے آنکھوں میں روشن یاد سے اس کے ہیں ناصر
وہی اک غم جسے ہر روز یہ دل کھینچتا ہے