جس تناسب سے آبادی بڑھ رہی ہے اس سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان میں ایک رہائش اور دوسرا روزگار کا مسئلہ ہے۔ روزگا ر کے لئے چونکہ زراعت نے اپنا دامن سکیڑنا شروع کر دیا ہے اس لئے حکومت کو زیادہ توجہ صنعت کی طرف ہی دینی پڑ گئی ہے مگر صنعت کے ساتھ ایک دوسرا بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے وہ یہ کہ جہاں کوئی صنعت لگتی ہے وہاں صنعتی مزدوروں کے لئے رہائش کا بندوبست بھی کرنا پڑتا ہے یوں صنعتی شہر کاپھیلاو¿ دن بدن بڑھتا ہی جاتا ہے۔ کراچی کے دارالخلافہ ہونے اور اس کا ایک بندر گاہ ہونے کے سبب زیادہ صنعتیں اسی شہرمیں لگائی گئی ہیں ¾ان صنعتوں نے سارے ملک کے مزدوروں اور کاریگروں کو اس شہر میں منتقل ہونے پر مجبور کیا اور اس کی وجہ سے اس شہر کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا ۔ دوسرے مہاجرین نے جو ہندوستان سے ہجرت کی تو وہ مہاجر جو مشرقی پنجاب سے آئے انہوں نے تو خود کو پنجاب میں ہی ایڈجسٹ کر لیا چونکہ وہ سارے ہی زراعت پیشہ تھے اس لئے اُن کی پنجاب میںاس طرح سے کھپت ہوئی کہ کسی کو پتہ ہی نہیں کوئی مہاجرہے یا انصار ہے مگر جو لوگ وسطی ہندوستان یا یوپی سی پی سے آئے وہ زیادہ تر زراعت پیشہ نہیںتھے اسلئے انکو کراچی میں ہی سیٹل ہونا پڑا اور یوں کراچی صنعتی لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی پھیلتا چلا گیااور ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگوں نے کراچی کو ہی مسکن بنایا اس لئے کہ تقریباً ساری ہی صنعتیں اسی شہر میں لگیں۔ اب کراچی نے اس قدر خو د کو پھیلا لیا کہ ا س کے مشرق مغرب شمال اور جنوب میں صرف کراچی ہی ہے۔
گو جنوب میں سمندر ہے لیکن وہ بھی کراچی ہی بنتا جا رہاہے۔ جہاں آبادی بہت زیادہ ہوجائے تو وہاں قدرتی امر ہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ وہاںمعاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے چنانچہ کراچی کے ساتھ یہی کچھ ہور ہا ۔ لوگوں نے جہاں سینگ سمائے اپنی جھگیاں چھت لی ہیں اور یہ نہیں دیکھا کہ جہاں وہ گھر بنا رہے ہیںوہ کوئی شاہراہ ہے یا کوئی خشک دریا ہے اور جب کبھی اس شہر میں بارش ہوتی ہے تو پانی کو باہر جانے کا راستہ ہی نہیں ملتا ۔ مگر پانی کب اپنا راستہ بنانا چھوڑتا ہے ۔ چنانچہ جب وہ راستہ بناتا ہے تو اس کی راہ میں جو مکانات بنے ہوتے ہیں وہ ان کو ساتھ ہی بہا لے جاتا ہے۔ اس سال جو کراچی میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پانی نے دیکھا کہ اُسکا تو ہر طرف سے راستہ بند ہے تو اس کے شہر کی سڑکوں پر ہی ڈیرے ڈال لئے اور جب اس میںاضافہ ہو اتو وہ ہر ایک گھر کا اور ہردکان کا مہمان بن بیٹھا اب اگر کوئی اس سے خفا ہوتا ہے تو اس میں پانی کاکیا قصور ہے۔ لوگ نہ اس کا راستہ روکتے اور نہ وہ ان کا مہمان بنتا۔ اب کراچی کے باسیو ںکا حال یہ ہے کہ نہ جائے ماندن اور نہ پائے رفتن والا معاملہ بنا ہوا ہے۔ کراچی کے شہری حکومت سے شکوہ کناں ہیں کہ اُس نے اُن کی خبر نہیں لی ۔ بھائی بے ہنگم آبادیاں آپ بنائیں اور گلہ حکومت سے کریں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی کوئی اپنے لئے مکان بناتا ہے وہ پہلے اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا مکان میں دھوپ اور ہوا کا گزر ہوگا یا نہیںاور یہ کہ اگر بارش ہوتی ہے تو کیا بارش کا پانی بغیر مکان کو نقصان پہنچائے یہاںسے گزرے گا یا نہیں اور اگر وہ ان باتوںکا خیال کئے بغیر مکان تعمیر کرتا ہے تو پھر اس کو گلہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔
کراچی میں یہی ہوا ہے کہ لوگوں نے اس بات کا خیال سرے سے نہیں رکھا۔ اور آج وہ بھگت رہے ہیں۔ بارش نے پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں کا بھی پول کھول دیا ہے لاہور ہو یا فیصل آباد ، گوجرانوالہ ہو کہ راولپنڈی سب کو بارش نے سبق سکھا دیا ہے۔ ہر گھر پانی میں ڈوبا ہے اور ہر سڑک دریا بنی پھر رہی ہے۔ جو لوگ اپنی موٹروں پر فخر سے پیدل چلنے والوں پر پانی پھینکتے ہوئے جاتے تھے اب وہ اپنی گاڑیوں سے بے زارہیں اور کوئی ان کی گاڑیوں کو دھکالگانے کو بھی تیار نہیں ہے اور بہت سے لوگوں نے تو گاڑیوں کو پانی میں ہی چھوڑ کر پیدل گھروں کی راہ لی ہے اب گاڑی جانے اور سڑک جانے اور اب پیدل چلنے والے اپنی قسمت پر ناز کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مزے سے پانی میں چھپا چھپ کرتے گھروں کو جا رہے ہیں۔