ایک زمانہ تھا کہ سیاسی لیڈروں کو ووٹ حاصل کرنے کے لئے گاو¿ں گاو¿ں بجلی پہنچانی پڑتی تھی۔الیکشن سے کچھ ماہ قبل گاو¿ں کے باہر بجلی کے کھمبے پہنچا دیئے جاتے تھے او رجلسوں میں بڑے طمطراق سے اعلانات ہوتے تھے کہ ہم جیت گئے تو گاو¿ں میں بجلی پہنچائیں گے اور گاو¿ں کو شہروں سے ملانے کے لئے سڑکیں بنا ئیں گے۔ وغیرہ وغیرہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی سیاست دان نے یہ اعلان کیا ہو کہ میںاس گاو¿ں کے لئے ایک پرائمری سکول ہی بنوادوں گا۔ یا کسی پرائمری سکول کا درجہ ہی بڑھا دوں گا اس لئے کہ ہمارے سیاست دانوں کے نزدیک علم کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ اب جو تعلیم کی ضروت اور اہمیت کو جانا گیا تو اب سیاسی لوگ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں تو وہاں کوئی سکول، کالج یا یونیورسٹی کھولنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑی ہی مثبت تبدیلی ہے۔مگر اس میں ایک قباحت جو سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ سکول کی عمارت تک تو سیاست دانوں کی دلچسپی رہتی ہے مگر اس کے بعد جو سکو ل کی ضروریات ہوتی ہیں اس کے لئے کسی کو کوئی خیال نہیں آتا۔ نہ کوئی بچوں کی آسائشوں کا خیال کرتا ہے ساور نہ سکول میں بچوں کی تعلیمی ضروریات کا کسی کو خیال رہتا ہے۔ اگر جیت گئے یا ہار گئے پھر مُڑکر اس پنج سالے میں اس گاو¿ں کا رخ نہیں کرنا۔ اب جو تعلیم عام ہوئی ہے تو سیاسی لیڈروں کو یونیورسٹیوںکا خیال آ گیا ہے۔ جس بھی شہر میں کوئی صاحب اقتدار جاتا ہے تو وہاں پہلا کام یہ کرتا ہے کہ ُاس شہرکے لئے ایک یونیورسٹی کا اعلان کرتا ہے۔
یہ معلوم نہیں کہ ایک یونیورسٹی کے لئے کیا کیا ضرویات ہوتی ہیں۔ایک یونیورسٹی میں کئی ایک شعبے ہوتے ہیں اور ہر شعبے کے لئے کمروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر شعبے کےلئے ایک لائبریری اور اس کےلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جو یونیورسٹیاں ملک میں کام کر رہی ہیں ان میں پورسٹاف ہی نہیں ہے۔ نامی گرامی یونیورسٹیوں میں بھی ڈیلیویجز پر اساتذہ کام کر رہے ہیں۔کسی بھی یونیورسٹی میں ڈیلی ویجز کے اساتذہ کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ اس میں تو ہر مضمون کےلئے پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا ۔ یونیورسٹی میں جتنے بھی شعبے ہیں ان کےلئے جو ضروریات ہیں وہ کچھ یوں ہیں ۔ ایک ہیومینٹی( آرٹس) کے شعبے کے لئے کم از کم دو کلاس روم۔ ایک دفتر کلیریکل سٹاف کےلئے ۔ ایک دفتر چیئر مین کے لئے ، ایک ایک کمرہ ہر سٹاف ممبر کیلئے یا اور ایک بڑا ہال دیگر اساتذہ کےلئے لیکن عام طور ٹیچنگ سٹاف کے ہر ممبر کےلئے ایک الگ کمرہ چاہئے ہوتا ہے اس کے علاوہ ایک لائبریری کا کمرہ اور ایک کمرہ طلباءکی ری کرئیشن کےلئے یوں ایک ہیومینٹی کے شعبے کے لئے آپ کو کم از کم بارہ کمرے چاہئے ہوتے ہیں۔ اور یونیورسٹی میں جتنے ہیومینٹی کے مضامین ہیں ان کا حساب لگا لیں ۔ اور سائنس کے مضامین کے لئے کم از کم چار کمرے لیبارٹیز کے لئے چاہئے ہوتے ہےں اور ہر لیبارٹری کے لئے ایک دفتر چاہئے ہوتا ہے اور پھر لیبارٹریوں کے لئے جو سامان روزمرہ کے لئے چاہئے ہوتا ہے۔
وہ الگ اس کے علاوہ ایک بڑی لائبریری پوری یونی ورسٹی کے طلباءکےلئے کہ جس میں دنیا بھر کی پرانی اور نئی کتب کا ذخیرہ ہو کہ جس سے طلباءاور ریسرچ سکالر استفادہ کر سکیں اور جہاں دنیا بھر کے اہم اخبارا ور رسائل بھی ملیں۔ اس لئے کہ یہ ساری چیزیں ریسرچ کے لئے لازمی ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ طلباءکے لئے روز مرہ کی انفار میشن کا بھی ذریعہ ہوتی ہیں۔ اب اس کے لئے آپ کو جو زمین درکار ہو گی وہ اور اس کے ساتھ ساتھ جو دوسری ضروری اشیاءکی ضرورت پڑے گی اس کا بھی حساب کر لیں ایک اور بات کہ یونی ورسٹیاں عام طور پر ریزیڈنشیل ہو تی ہیں یعنی ان کے سٹاف کےلئے گھر اور طلباءکے لئے ہاسٹل بھی درکار ہوتے ہیں ۔ یہ سب کچھ نظر میں رکھیں اور پھر اُس ملک میں کہ جہاں موجودہ یونیورسٹیوں کے لئے بھی مکمل سہولیات میسر نہیں ہیں اُس ملک میں کوئی اگر ہر ضلعے میں یونیورسٹی بنانے کا کہتا ہے تو اُسے کیا کہاجائے۔تعلیمی اداروں کا بنانا اور عوام تک علم اور اعلیٰ تعلیم کی روشنی کوعام کرنا بہت احسن اقدام ہے تاہم اس کو سیاسی مقاصد کی بجائے عوام کی بھلائی اور ان کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر پورا کرنا چاہئے۔ تب ہی جو بھی یونیورسٹی کے بنانے کا اعلان کریگا تو ساتھ ہی تمام تقاضوں اور ضروریات کو بھی مد نظر رکھے گا اور اسی میں ہی عوام کی بھلائی ہے۔