افغانستان میں امن کی تلاش

 افغانستان میںامن کی کوششیں کامیابی کے دروازے تک پہنچتی ہیں تو دروازہ بند ہو جاتا ہے1975ءسے شروع ہونیوالی بے چینی‘ انقلاب درانقلاب اورخانہ جنگی تو ہمارے آنکھوں کے سامنے گزرے حالات ہیں پاکستان قریب ترین ہمسایہ ہونے کی وجہ سے افغانستان کی ہرپریشانی سے براہ راست متاثر ہو رہاہے کیونکہ وہاں کے متاثرین اس صورت میںسرحد پار کرکے یہاں آجاتے ہیں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں نے پاکستان کیلئے کبھی خیرسگالی نہیں دکھائی اگرچہ ہمارے درمیان کوئی باقاعدہ جنگ بھی نہیں ہوئی لیکن تعلقات ہمیشہ پانی پر بلبلے کی طرح ہی نازک رہے1979 میں جب افغانستان میں سوویت یونین نے فوج اتاری تو یہ عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ بن گیا افغان عوام نے غیر ملکی فوج کےخلاف مزاحمت شروع کردی اور تقریباً ایک سال تک وہ بے سروسامانی کے عالم میں اکیلے ہی لڑتے رہے اس دوران30لاکھ سے زائد افغانی نقل مکانی کرکے پاکستان آگئے پاکستان نے نہ صرف ان کی میزبانی کی بلکہ سوویت فوج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی اخلاقی اور فوجی مدد بھی شروع کی ابتداءمیں تو دنیا سمجھ رہی تھی کہ افغان زیادہ مزاحمت نہیں کر سکیں گے لیکن جب یہ اندازے غلط ہونے لگے تو امریکہ بھی مجاہدین کی مدد کو آگیا لیکن اس وقت کی فوجی قیادت نے امریکہ کو براہ راست افغان مجاہدین سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی اور جو بھی امداد آئی وہ پاکستان نے آگے پہنچائی اگرچہ 8سال کی جنگ کے بعد سوویت یونین خوارہو کر افغانستان سے نکل گیا مگر افغانستان میں امن نہیں آسکا بعد میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ چڑھائی کی کابل کی حد تک عالمی طورپر تسلیم شدہ حکومت رہی لیکن باقی افغانستان میں بدامنی کا راج رہا اس میں زیادہ ہاتھ بھارت کا ہی رہا کیونکہ وہ افغانستان میں بدامنی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو پروموٹ کرتا ہے۔

 لیکن پاکستان نے ہر دور میں یہ کوشش کی کہ ہمسایہ ملک میں امن ہو کیونکہ پاکستان کیلئے پرامن اور مضبوط افغانستان ہی قابل قبول ہے وہاں خانہ جنگی کا براہ راست اثر ہم پر پڑتا ہے بہرحال امریکہ کے صدرٹرمپ نے اپنی فوج نکالنے کیلئے پاکستان سے مدد چاہی تو پاکستان نے واضح کیا کہ جب تک افغانستان میں تمام سیاسی قوتوں کے درمیان امن معاہدہ نہ ہو اس وقت تک دیرپا امن نہیں آسکتا پاکستان ہی کی تجویز پر امریکہ نے افغان طالبان کو ایک سیاسی قوت تسلیم کیا اوران سے مذاکرات کئے اگرچہ دونوں کے درمیان آگ اور خون کے کئی دریا حائل رہے ہیں لیکن اسکے باوجود قطر میں امریکہ‘ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا اس پرعملدرآمد سے پہلے ہی افغان انتظامیہ نے کچھ ایسے اقدام اٹھائے کہ جنگ بندی بھی ٹوٹ گئی لیکن پاکستان کوشاں رہا کہ معاہدے پر عمل ہو جائے اس وقت امریکہ میں صدارتی الیکشن کا ماحول ہے اسکے باوجود پاکستان نے خلوص دل سے افغان طالبان کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی اور ایک چھ رکنی وفد آیا۔

 اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کے ساتھ فون پر بھی بات کی اور اس بات پر زوردیا کہ افغان تنازعہ کا کوئی جنگی حل نہیں ہے بلکہ واحد حل مذاکرات ہیں جتنی جلدی انٹراافغان مذاکرات شروع ہونگے اتنا جلدی امن قائم ہوگا عبداللہ عبداللہ نے بھی قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور جلد پاکستان کا دورہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے وزیراعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے افغانستان میں امن قائم ہو اور اس کیلئے ہر طرح کی سہولت کاری کر رہا ہے امید ہے کہ افغانستان کی سیاسی قیادت اس موقع کو ضائع نہیں کرے گی اور باہمی مذاکرات کیلئے مستقبل کا حل تلاش کرے گی افغانوں نے غیرملکی افواج کے ساتھ بھی لڑ کر دیکھ لیا اور آپس میں زورآزما کر بھی‘ اب وقت آگیا ہے کہ ایک موقع امن کو بھی دیا جائے اور یقینا اس وقت یہی سوچ غالب ہے وہ دن دور نہیں جب افغانستان میں مخلوط حکومت قائم ہوگی اور دہشت گردوں کیلئے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔