سب پانی میں ڈوب گیا

  بارش ایک حد سے زیادہ ہوتو سڑکوں اورآ بادیوں میں پانی جمع ہو جانا ایک فطری بات ہے لیکن یہ پانی کچھ دیر بعد نشیبی علاقوں سے ندی نالوں اور دریاؤں سے اتر جاتا ہے ہر شہر کے اندر کوئی نہ کوئی برساتی ندی یا نالہ موجود ہے اور اس نکاسی کا قدرتی انتظام ہے شہروں کی جدید تعمیر اور پلاننگ میں جہاں سیوریج کیلئے پائپ لائنیں بچھائی جاتی ہیں وہاں برساتی پانی کی نکاسی کیلئے بھی نالے تعمیر کئے جاتے ہیں شہروں کی انتظامیہ اور ادارے ان کی حفاظت کرتے ہیں ان کی صفائی رکھتے ہیں بالخصوص برسات کے موسم سے پہلے ان کی نگرانی کی جاتی ہے مگر دو دہائیوں سے ہمارے ملک میں جو حکومتیں اور شہری ادارے وجود میں آئے انہوں نے شہروں کے قدیم نظام اور انفراسٹرکچر کو بھی نہیں سنبھالا بلکہ تباہ کرنے پر زوردیا شہروں میں قدرتی نالوں کی صفائی کرنیکی بجائے ان کو بند کرکے پلاٹ اور پلازے بنالئے گئے خالی پارکوں اور عوامی استعمال کی جگہوں پر بھی پلاٹ بناکر بیچ کھائے حد تو یہ ہے کہ قدیم راستوں اور ریل کی پٹڑی پر بھی تعمیرات کرلیں یہ تقریباً ہر شہر میں ہوتا رہا لیکن کراچی تو اس کا خاص ہدف رہا کراچی کبھی جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں ایک بے مثال شہر تھا اور باہر کے لوگ کراچی دیکھنے آیا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنوں نے ایسے انتقام کا نشانہ بنایا کہ اب ڈھونڈنے سے بھی وہ کراچی نظر نہیں آتا ان دنوں بارش کے پانی نے کراچی والوں کو اس عذاب سے آشنا کرایا ہے جو ناقابل برداشت ہے6 دن ہوگئے جن سڑکوں اور گھروں میں پانی داخل ہوا تھا وہ ابھی تک کھڑا ہے سندھ میں بلدیاتی اداروں کے ذریعے بڑے شہروں میں ایم کیو ایم مسلط رہی اب12 سال سے پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل حکمران ہے۔

 اس سے پہلے بھی زیادہ عرصہ وہی حکمران رہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے اقتدار کے دوران صرف گھوسٹ استاد اور بلدیاتی ملازمین بھرتی کرتی رہیں یہ ان کیلئے انتخابات میں جعلی ووٹ ڈالنے کے وقت کام آتے ہیں اور یہ ایسا پختہ بندوبست ہے کہ اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی اور شہروں سے ایم کیو ایم اور کو ہرانا مشکل ہے باقی دونوں وسائل کھانے اور اثاثے بیچنے میں ہی مگن رہیں اب جبکہ کراچی ڈوبا ہوا ہے سرجانی سے لیکر ڈی ایچ اے اور ملیر سے لیکر بحریہ ٹاؤن تک ہر جگہ پانی نے مارکی ہے بڑے بڑے بنگلوں کی پہلی منزلیں اور ان میں فرنیچر اور سامان تباہ ہوگیا شہری کی مرکزی اور کاروباری شاہراہ آئی آئی چندریگر روڈ پر بھی پانی کھڑا ہے وہاں بنکوں کی بیسمنٹ میں عام طور پر لاکرز ہوتے ہیں۔

جن میں زیورات غیر ملکی کرنسی یا جائیدادوں کی دستاویزات رکھی جاتی ہیں یہ سب کچھ6 دن سے پانی میں ڈوبا ہوا ہے پتہ نہیں کس کس کا کتنا نقصان ہوچکا ہے مگر اب بھی صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی وفاقی حکومت نے بارشیں شروع ہونے کے بعد این ڈی ایم اے کو نالے صاف کرنے اور پانی نکالنے کا کہا وہ بھی صرف ٹھیکے ہی دے رہے ہیں فوج کے جوان(جن میں آرمی اور نیوی شامل ہیں) لوگوں کو گھروں سے نکال رہے ہیں اور خشک راشن بھی دے رہے ہیں باقی کوئی حکومتی یا بلدیاتی نظام کہیں نظر نہیں آرہا اگرچہ ان بارشوں سے لاہور‘ پشاور‘ راولپنڈی اور بلوچستان میں بھی بہت جانی و مالی نقصان ہوا ہے لیکن سچی بات ہے کراچی والوں کے دکھ کے سامنے یہ بھی دب گئے ہیں اب وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعہ کو کراچی جائینگے لیکن پتہ نہیں وہ وہاں جاکر کیاکرینگے کراچی والوں کو ڈبونے کیلئے گزشتہ بیس سال سے پوری تندہی سے محنت اور کوشش کی گئی اب چند دن میں اس کامداوا تو نہیں ہو سکتا جب تک ہرناجائز تعمیر کوگرایا نہیں جاتااور ہر نالہ ندی کو خالی نہیں کیا جاتا کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا البتہ اس مصیبت کی آڑ میں اربوں روپے مخصوص جیبوں میں ضرور چلے جائینگے۔