جنگ ستمبر کچھ یا دیں

ایم ایس سی پریویس پاس کر کے فائنل میں داخلہ لیا تو یونیورسٹی ہاسٹل نمبر ایک میں کمرہ ملا ¾ جلد ہی ہمارے ایبٹ آباد کے رومیٹ انور نے بھی انجینئرنگ میںداخلہ لیا اور ان کوبھی اسی ہاسٹل میں داخلہ ملا اور ہم نے ایک ہی کمرہ شیئرکر لیا¾ ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ اعلان ہو گیا کہ ہندوستان نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے ¾اب ہر شام کو ہم ہاسٹل نمبر دوکے باہر کینٹین پر ریڈیو سے ملکی حالات کے علاوہ جنگ کی خبریں بھی سنتے تھے۔ خبریں روزانہ ہی حوصلہ افزاءہوتی تھیں ¾انڈیا ریڈیو تو بتا رہا ہوتا تھا کہ ابھی لاہور ہماری فوجوں کی زد میں ہے اور انڈیا کے جو کمانڈر لاہور میں شراب نوشی کرنے آئے تھے وہ ابھی تک لاہور نہیں پہنچ پائے تھے اور روزانہ کے حساب سے مختلف سیکٹروں سے فوجیوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر ہندوستان لے جا رہے تھے۔

 

خصوصاً لاہور سیکٹر سے کہ جہاںان کا کمانڈر شراب نوشی کے لئے آیا تھا جس جس جا بھی ہندوستان نے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی وہا ںوہاں سے اُسے اپنے فوجیوںکی لا شیں اٹھانے سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے سیکٹروں سے ہندوستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی خبریں بھی صبح شام آ رہی تھیں۔ ڈیپارٹمنٹ سے واپس آ کر ہماری دلچسپی صرف شام کو یونیورسٹی ہاسٹل نمبر دو کے باہر کینٹین پر شام کی خبروں میں جنگ کے حا لات سننے میں تھی ۔ روزانہ یہی سن رہے تھے کہ فلاں فلاں سیکٹر میںہندوستانی فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ جنگ کے غالباً تیسرے روز سنا کہ جنگ میں ہوائی فوج نے بھی حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔پہلا ہی حملہ جو لاہور پر کیا گیا ہندوستان کی ایئر فورس کو منہ کی کھانی پڑی اور اپنے بہت سے طیارے تباہ کرنے کے بعد جو ایک آدھ بچ گیا تھا اُس کو اپنی تباہی کا حال بتانے کے لئے واپس جانے دیا گیا ۔

 

اس کے بعد ہندوستان نے کوشش تو کی کہ پاکستان پر ہوائی حملے جاری رکھے جائیں مگر ہمارے شاہینوں نے اُن کے ہلواڑہ اڈے پر بیٹھے جہازوں کو ہمیشہ کے لئے بٹھا دیا اور پھر کوئی اکا دکا حملے چھپ چھپا کر کئے جاتے رہے اور وہ بھی یوں کہ جیسے ہی ہندوستانی طیارے پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے پاکستانی شاہین اُن کے استقبال کو اٹھ کھڑے ہوتے اور وہ اپنے بم کسی بھی جگہ پر پھینک کر بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے۔ اسی دوران ایک دن ہماری آنکھ لگی ہی تھی کہ فضا ءمیں سائرنوں کی آواز گونجی اور ہم دوڑکر باہر گراو¿نڈ میں نکل آئے اور کچھ لڑکے گراو¿نڈ میں لیٹ گئے مگر زیادہ تر طلباءہندوستانی طیاروں کو فضاءمیں اڑتے دیکھتے رہے۔ طیارے فضا ءسے بم گرا رہے تھے اور ہماری ایئرفورس کے اڈے سے اینٹی ائر کرافٹ گنیں طیاروں پر گولیوں کی بارش کر رہی تھیں ۔

 

ہم اپنے ہاسٹل نمبر ون کے باہر گراو¿نڈ سے اس کا نظارہ کر رہے تھے۔ حملہ ختم ہونے کے سائرن بجے تو ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ایک دو دن بعد پھر یہی عمل ہوا اور ہم باہر گراو¿نڈ سے طیاروں کی بمباری کا نظارہ کرتے رہے۔ دوسرے دن کو جو ہمارے ایئر فورس کے علاقے کے ہمارے کلاس فیلو آئے تو ان سے معلوم ہوا کہ ہندوستانی طیارے ادھر ادھر بم پھینک کر بھاگ گئے ۔ ایک دو دن بعد ہمارے کلاس فیلو کیمبل پو رسے آئے اور اُسی رات کو ہندوستانی ایئر فورس کا حملہ پشاور پر ہو گیا۔ جب خطرے کے سائرن بجے تو ہم لوگ باہر نکل آئے ۔ہمارے دوست سوئے ہوئے تھے اُن کو حملے کا معلوم نہیں ہوا ، جب خطرہ ٹلنے کا سائرن بجا تو ہم اندر آ گئے اور اس وقت کہیں ہمارے دوست کی آنکھ کھل گئی اور وہ اٹھ کر باہر چلے گئے۔

 

اُس رات چار پانچ دفعہ خطرے کے سائرن بجے تھے ۔ ہمارے دوست جب خطرے کا سائرن بجتا تو وہ اندر آ جاتے او ر جب خطرہ ٹلنے کا سائن بجتا تو وہ باہر نکل جاتے ۔اُن کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا۔ جب جنگ کا خطرہ ٹل گیا تو ہمیں حکم ہو ا کہ ہم ایئر فورس کے گراو¿نڈ جائیں اور وہاں کام کریں ۔ اس بعد کئی دن تک ہم اور جیل کے قیدی ایئر فورس کے گراو¿نڈ میں ایروڈرم کی توسیع اور جہازوں کے لئے ہینگر بناتے رہے ۔جب امن کا معاہدہ ہو گیا تو ہم پھر سے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے مگر یہ دن ہمارے لئے ایسے یادگار بنے کہ اب بھی ان کی یاد ہمارے ذہنون سے محو نہیں ہو رہی۔