اوورسیز پاکستانی اگر وطن عزیز کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتے ہیں، تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے لئے بھی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی جیسے ہی ہوتے ہیں۔ سالانہ چار ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ بھیجنے کے بعد بھی وہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کو فنڈز دیتے ہیں بلکہ سیاسی قائدین کے غیر ملکی پروگرام، سیر و تفریح اور تحائف پر بھی اربوں خرچ کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ملکی سیاست میں بھی کوئی کردار ادا کریں،پارلیمنٹ کی رکنیت یا حکومت میں کوئی عہدہ حاصل کریں، سیاسی جماعتیں سمندرپارپاکستانیوں کی اس خواہش کو خوب کیش کراتی ہیں،مگر ان کی پارلیمنٹ میں شمولیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کسی جماعت نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کسی دہری شہریت کے حامل پاکستانی کو الیکشن لڑنے کے لیے دوسرے ملک کی شہریت ترک کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو جاتے ہیں۔سیاسی جماعتیں صرف بیرون ملک تنظیمیں بناکر اور بڑے فنانسرز کو عہدے دے کر ہی خوش کر دیتی ہیں۔ حالانکہ دوسرے ممالک میں سیاسی جماعتوں کی تنظیم کی کوئی ضرورت یا مقصد نہیں۔ یہ سب کچھ صرف اپنے لئے فنڈنگ کی راہ ہموار کرنے کیلئے کیا جاتا ہے یا پھر یہ تنظیمیں پارٹی قیادت کے بیرون ملک جانے کا خرچہ اٹھاتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے انتخابی قوانین میں کسی سیاسی جماعت کے دوسرے ممالک سے فنڈز اکٹھے کرنے پر پابندی ہے اور اس وقت تینوں بڑی جماعتوں پر غیر ملکی فنڈز جمع کرنے کے خلاف مقدمات الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں موجودہ حکومت نے پہلی بار دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کیلئے پارلیمنٹ میں داخلے کی راہیں کھولنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اگرچہ مجوزہ قانون کے تحت منتخب ہونے کے بعد اور حلف اٹھانے سے پہلے دوسری شہریت چھوڑنا پڑے گی۔ لیکن انتخاب لڑنے کے لیے ان کو آزادی ہو گی اس طرح الیکشن ہارنے کی صورت میں دوسری شہریت کو ترک نہیں کرنا پڑے گا اس کیلئے آئین کے آرٹیکل63 میں رکن پارلیمنٹ کی اہلیت کی شق میں ترمیم کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے‘ توقع ہے کہ شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں یہ بھی منظور ہو جائے گا۔ اگرچہ اس ترمیم سے سمندر پار پاکستانیوں کو قابل ذکر سہولت نہیں دی گئی اور پارلیمنٹ میں جانے سے پہلے ان کو غیر ملکی شہریت بہرحال چھوڑنا پڑے گی۔ لیکن سیاسی جماعتیں اتنی بات پر بھی ان پر خلوص پاکستانی بھائیوں کو ٹکٹ بیچنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ جو سمندر پار پاکستانی صرف پارٹی عہدہ حاصل کرنے کیلئے کروڑوں خرچ کرتے ہیں، ان کے لیے پارٹی ٹکٹ کا حصول ایک بڑی پرکشش چیز ہو گی۔ لیکن دہری شہریت اب صرف سمندر پار پاکستانیوں کا ہی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پاکستان میں رہنے والے بھی ہزاروں شہری کسی نہ کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کیے ہوئے ہیں‘حتیٰ کے گریڈ20 سے 22 تک سرکاری افسران کی بڑی تعداد بھی دہری شہریت رکھتی ہے وزارت خارجہ کے افسران کی اکثریت غیر ملکی شہریت کی حامل ہے۔ یہ ایک آئینی کنفیوژن ہے کہ اہم حکومتی اور فیصلہ ساز اداروں میں دہری شہریت رکھنے والے موجود ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں‘جبکہ ارکان پارلیمنٹ پر اس کی پابندی ہے ہمارے سیاستدانوں کی اولاد میں سے بھی اکثر دوسرے ممالک کے شہری ہیں‘ اب اس سہولت اور موجودہ قانون سے پہلا فائدہ تو پاکستان میں رہ کر دہری شہریت رکھنے والوں کو ہوگا،جو الیکشن لڑنے میں آزاد ہوں گے اور صرف الیکشن جیتنے کے بعد ہی وہ دوسری شہریت چھوڑیں گے۔ جو پاکستانی برسوں سے دوسرے ممالک میں رہ کر ملک کیلئے زرمبادلہ بھیج رہے ہیں‘سیاسی جماعتوں کے خرچے پورے کر رہے ہیں، ان کیلئے اب بھی زیادہ چانس نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے چند نشستیں مختص کی جائیں اور ان پر ایسے پاکستانیوں کو نامزد کیا جائے، جنہوں نے زیادہزرمبادلہ بھیجا ہو یا ملک میں سرمایہ کاری کی ہو اس سے مخلص افراد کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ پارلیمنٹ میں بہتر نمائندگی بھی کر سکیں گے‘آئینی طور پر سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں پر بھی پابندی ہونی چاہیے‘ کیونکہ اگر سیاسی جماعتوں پر ایسے فنڈز لینے پر پابندی ہے تو دینے والوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے اور سرکاری ملازمین کی دہری شہریت پر بھی قدغن کیلئے آئین میں ترمیم ضروری ہے۔