اہل شہر اور نوکریاں

ہمیشہ سے یہی سنا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی آسامی سامنے آتی ہے تو اس میں بھرتیوں کا طریقہ یہ ہے اخبار میں اشتہار دو ، درخواستیں آئیں گی ۔ انٹرویو لو اور بس اور اس کے بعد یہ معلوم نہیںہوتا کہ یہ آسامیاں پُر کیسے ہوئیں۔ اب تو بات بہت پرانی ہو گئی ہے کہ ہم نے جب ایم ایس سی کیا تو اس سے قبل ایک ہندو پاک جنگ ہو چکی تھی جس کے اثرات میں ایک یہ بھی تھا کہ بھرتیوں پر پابندیاں لگ گئی تھیں۔ دریں اثنا کچھ آسامیاں محکمہ تعلیم میں نکلیں جس کےلئے ہم نے بھی درخواست دی اور انٹر ویو دے کر آ گئے۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ ہم نے نا حق انٹرویو دیا ہے کہ یہ آسامی تو فلاں لڑکے کےلئے تھی سو وہ بھرتی ہو گیا ہے۔ وہ لڑکا بھی ہمارا کلاس فیلو ہی تھا کہا کہ چلو کسی کو تو نوکری مل گئی ہے۔

 

پھر ایک پوسٹ کےلئے ہم نے اپلائی کیا اور انٹر ویو کےلئے گئے تو انٹر ویو ہمارے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ریڈر لے رہے تھے جنہوں نے پہلے بھی انٹرویو لیا تھا ۔ اب جو ہم ان کے سامنے انٹر ویو کےلئے حاضر ہوئے تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا تم کو پہلے والی پوسٹ پر بھرتی نہیں کیا گیا میں نے کہا نہیں سر اُس پر فلاں لڑکا بھرتی ہو گیا ہے۔انہوں نے فرمایا کہ تم تو اس انٹر ویو میں پہلے نمبر پر تھے۔ میں نے عرض کیا سر میں انٹرویو میں تو اول آ سکتا ہوں مگر میری کوئی سفارش نہیںہے اس لئے ہم جیسوں کی با ت ذرا مشکل ہی سے بنتی ہے۔ وہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کسی بھی پوسٹ کے لئے اب بھی لیاقت سے زیادہ سفارش کی ضرورت ہوتی ہے خدا جانے کب اس ملک میں میرٹ کا راج ہو گا اور تب اس ملک میں ترقی کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ ابھی تک تو رواج وہی پرانا ہے کہ کسی بھی آسامی کےلئے آپ کو لیاقت کی نہیںسفار ش کی ضرورت ہے۔

 

میں اب ایک مدت سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں مگر بھرتی کا رواج وہی پرانا ہے۔ ہم لوگ اس طرح خوش قسمت ٹھہرے تھے کہ ہماری ایڈہاک تقرری بھی پبلک سروس کمیشن نے کی تھی۔ اگر پہلے کی طرح محکمانہ انٹرویو پر ہی بھرتیاں ہوتیں تو شاید ہم کبھی بھی بھرتی نہ ہوسکتے۔اس لئے کہ ہم دیہاتی اور وہ بھی دور دراز کے دیہاتی ہیں کہ جن کا کوئی بھی سفارشی نہیں ہے کبھی بھی کوئی پوسٹ لینے کے قابل نہ ہوتے۔ اب بھی رواج وہی ہے۔ آج ہی ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ پشاور کے کسی بندے نے گلہ کیا ہوا ہے کہ پشاور موٹر وے کےلئے بھرتیاں ہوئیں تو اس میں پشاور کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ پشاور والی اس سڑک کےلئے پشاوری کتنے ہی سال خاک پھانکتے رہے ہیں اور اس کی تکمیل کے بعد جب اس کےلئے کوئی بھرتیاں ہوئیں تو اس میں پشاور کے کسی بھی شخص کو بھی اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ اُسے بھی اس میں بھرتی کر لیا جاتا۔ اصول تو یہی وضع کیا گیا تھا کہ کسی بھی نوکری کے لئے اُس بستی کے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی کہ جہاں وہ پوسٹ نکلتی ہے

 

مگر اس کا خیال نہ کبھی پہلے رکھاگیا ہے اور نہ اب ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر ایک فیصلہ ہو گیا ہے تو اس پر عمل درآمد بھی ہونا چاہئے او ر اگر بات میرٹ پر کی جائے تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو گا مگر یہاں تو اس طرح ہی ہوتا آیا ہے کہ جیسے ہی کوئی آسامی خالی ہوتی ہے یا نئی پیدا کی جاتی ہے تو اُس کے مشتہر ہونے سے قبل ہی اس پر بندے رکھ لئے جاتے ہیں۔ اگر کسی بندے کو اس کی خدمات کے صلے میں نئی آسامی پر بھرتی کرنا ہی ہے تو اس آسامی کو مشتہر ہی نہ کیا جائے۔ خود سے ہی اسے پر کر لیا جائے اس طرح ایک بڑی آبادی کی دل آزاری تو نہیںہوگی نا۔ کہ ایک بندہ آسامی کے لئے انٹرویو دیتا ہے اور وہ انٹر ویو میںپہلی پوزیشن حاصل کرتا ہے تو اُسے نظر انداز کر کے اپنے بندے کو بھرتی کیا جاتا ہے تو یہ انتہائی ناجائز ہے۔

 

مگر کیا کیا جائے کہ ابھی تک ہم میرٹ پر کسی بھی خالی آسامی کو پر نہیں کر سکے اور اس کے لئے چاچے مامے کو ہی دیکھا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیں کہ کسی بھی محکمے میں آپ کسی کام کے لئے چلے جائیں تو آپکا کام اس لئے نہیں ہو گا کہ اُس کو دیکھنے والا ایک سفارشی ہے اور اُس کو کام کا پتہ ہی نہیںہے ۔ لوگوں کی فائلیں مہینوں تک ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک اسی لئے نہیں جاتیں۔ بہت دفعہ آپ کی فائل اس لئے بھی آگے نہیں جاتی کہ آپ اُس کا پیچھا نہیںکرتے۔ آپ کو اپنی فائل خود ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک پہنچانی پڑتی ہے۔ اور اس کا طریقہ بھی ہر اُس شخص کو معلوم ہے کہ جس کا پالاان دفتروں سے پڑا ہے۔ اس لئے کہ بغیر پہیوں کے تو فائیل چل ہی نہیں سکتی او رپہیے آپکوخود لگانے پڑتے ہیں۔