سندھ اور جنوبی پنجاب

انسا ن اور موسموں کا تعلق ازل سے ہے اور انسان ہمیشہ سے ان موسموں کا مقابلہ کرتا آیا ہے۔ انسان کو کبھی سمندری طوفانوں کا سامناہوا اور کبھی آسمانی آفات کا سامنا رہا ۔ انسان نے ہر صورت میں ان کا مقابلہ کیا ۔ بارشوں کے نہ ہونے نے قحط کی صورت پید اکی تو بھی یہ مقابلے میں ڈٹا رہا اور زیادہ بارشوں نے طوفانی صورت اختیار کی تو بھی یہ اُس کے سامنے سینہ سپر رہا ۔ انسان نے ایک دوسرے کے خلاف جنگوںمیں بھی حوصلہ دکھایا اور امن کی صورت میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹایا۔جب کوئی آسمانی آفت آئی تو آپس کی دشمنیوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کی امداد کی اور مل کر اس آفت سے باہر نکلے۔ اگر موجودہ بارشوں کے موسم کو جائزہ لیں تو اول تو محکمہ موسمیا ت نے پیش گوئی کر دی تھی کہ امسال زیادہ بارشوں کا امکان ہے۔

 

اور یہ بھی کہ اس کےلئے تیاری کر لینی چاہئے۔ مگر جہاں تک کراچی شہرکا تعلق ہے تو اس شہر نے صرف بوندا باندی ہی دیکھی تھی اور ا سی سے لطف اندوز ہوا تھا مگر اب کے بات کچھ زیادہ ہی بگڑ گئی۔ سیاہ کالے بادلوں نے جب شہر پہ سایہ کیا تو باسیوں نے اللہ کا شکر کیا کہ چالیس بیالیس ڈگری کی گرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے باسیوں نے اس کو اللہ کی رحمت جانا اور موسم سے لطف اندوز ہونے کے پروگرام بنانے لگے مگر جب ان ہی بادلوںنے برسنا شروع کیا تو سب کے ہاتھ پاو¿ں پھول گئے۔موسم سے طرف اندوز ہونے کی بجائے اپنے سامان کو بچانے کی فکر لاحق ہو گئی۔

 

شہر میں چونکہ بارشیں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیںاس لئے پانی کی نکاسی کے رستے میں لوگوں نے پانچ پانچ چھ چھ منزلہ عمارتیں کھڑی کر لیں۔ جتنے بھی ندی نالے شہر کا پانی باہر لے جاتے تھے اُن کو عمارتوں نے اتنا تنگ کر دیا کہ اب کے جو طوفانی بارشوں کا سلسلہ چلا تو پانی کو باہر جانے کا رستہ نہ ملا تو اُس نے سڑکوںاور گلیوں کو ہی اپنی گزر گاہ بنا لیا ۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ انسانوں کی راہ مسدود ہو گئی اور پھر جب پانی نے گھروں میں تانک جھانک شروع کی تو انسانوں کی چیخیں نکل گئیں ۔ جتنا بھی قیمتی سامان تھا اُن کو بارش کے پانی نے اپنی گود میں لے لیا اور انسان کے لئے بے بسی کا عالم بن گیا ۔

 

اگر ہم پانی کا راستہ نہ روکتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا ۔ یہ شاید کراچی والوں اور پی پی پی کی آزمائش تھی مگر کراچی کے بارے میں تو یہ ہے کہ یہاں بہت سے ” ملک “ ہیں اور جس گھر میںبہت سے معتبر ہوں یا جس علاقے کے بہت سے ملک ہوں تو وہاں کبھی بھی خوشحالی نہیں آیا کرتی اسی لئے کراچی کا یہ حال ہوا ہے۔ اب بھی جب کہ اس شہر کا بارشوں نے برا حال کیا ہوا ہے یہاں کی حاکمیت کا جھگڑا اب بھی باقی ہے اور اسی لئے کوئی بھی اس شہر کا ذمہ نہیں اٹھارہا۔ یہ حال تو کراچی والوں کا ہوا یا یوں کہیے کہ پی پی پی کی حکومت کا ہوا۔ اس کے علاوہ بھی پی پی پی کی حکومت کی آزمائش ہوئی ہے کہ پورا سندھ اور اس کے سارے بڑے شہر اس بارش نے اپنی لپیٹ میںیوں لئے کہ ابھی تک حکومت شہروں اور دیہاتوں سے پانی کو نہیں نکال سکی۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کا بھی امتحان شروع ہے۔

 

ایک تو بارشوں نے جل تھل ایک کیا دوسرے اب جو دریاو¿ں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا تو پنجاب کی حاکمیت پر بھی سوال اٹھنے شروع ہو گئے۔ مگر پنجاب کی حکومت کا تو ایک ہی جواب ہے کہ یہ سارا کچھ سابقہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ اسی لئے سابقہ حکومتوں کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسروں کا تیا پانچہ ہو رہا ہے کہ انہوںنے سابقہ حکومتوں کا ساتھ دیا تھا۔ اسی لئے پنجاب میں روزانہ اور ہفتہ وار بنیادوںپر سول سرونٹس اور پولیس افسروں کی شینٹنگ جاری ہے۔ اب جو بھی سیکریٹریز اور آئی جیز اور ڈی آئی جیز ہیںظاہر ہے کہ وہ حکومت کے ملازم ہیں انہوں نے توحاکموں کی ماننی ہے وہ چاہے جس بھی پارٹی سے ہوں ۔ ضروری ہے کہ حکومتی مشینری کو چھیڑنے کی بجائے اس سے بہترین انداز میں کام لیا جائے کیونکہ یہی حکومت کا مقصد بھی ہوتا ہے اور عوام کی خدمت کا طریقہ بھی‘ اگر حکومتی مشینری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا جائے تو اس سے چلتا پھرتا نظام ٹھپ ہو جاتا ہے۔