تعلیمی ادارے اور معیار تعلیم میں فرق

پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ تعلیم کبھی بھی سیاست دانوں کو ترجیح نہیں رہی ہماری تاریخ میں دیکھیں تو ہر بدلنے والی حکومت نے سابقہ حکومت کے ہر اقدام سے اختلاف کیا مگر ایک بات پر سب کا اتفاق رہا کہ تعلیم کو معیاری اور آسان نہیں ہونے دینا سرکاری تعلیم اداروں کی تباہی اور معیار کی گراوٹ کیلئے یہی ثبوت کافی ہے کہ کوئی سرکاری افسر یا سیاست دان اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل نہیں کراتا کئی بار یہ تجویز دی گئی کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ہر سرکاری ملازم کیلئے یہ لازم کیا جائے کہ اس کے بچے سرکاری سکول میں پڑھیں گے

 

اور اہل خانہ کا علاج سرکاری ہسپتال میں ہوگا تو ممکن ہے ان کی حالت کچھ بہتر ہو گزشتہ عشرہ کے دوران تعلیم عام کرنے کے نام پر بھاری رشوت لیکر نجی شعبے میں یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت دی گئی اس سے ڈگریاں فروخت کرنے کی دکانیں تو کھل گئیں لیکن تعلیم کا معیار مزید گر گیا البتہ کئی لوگ چند سالوں میں ارب پتی ہوگئے تعلیم کا کاروبار ایسا ہے کہ اس میں ناقص مال بھی مہنگا اور نقد فروخت ہوتا ہے والدین کو طرح طرح سے بلیک میل کرکے بھاری فیسیں اور ڈونیشن وصول کئے جاتے ہیں اس مایوس کن صورت میں کورونا بحران سے مزید خرابی پیدا ہوگئی مارچ سے تعلیمی ادارے بند ہیں فیسیں سمیٹنے کیلئے آن لائن کلاسز کا ڈرامہ چلایا گیا میٹرک اور انٹرمیڈیٹ جیسے اہم امتحانات ہی نہیں ہو سکے اور طلبہ کو سابقہ نتائج کی بنیاد پر پاس کردیاگیا

 

اس سے طلبہ کو اسناد ملنے کی راہ تو ہموار ہوگئی لیکن علم کسی کو نہیں مل سکا اب ملک بھر میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 15ستمبر سے مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھولنے شروع ہونگے پہلے مرحلے میں میٹرک سے لیکر یونیورسٹی لیول تک ادارے کھولے جائینگے اور ایک ہفتہ تک ان کی مانیٹرنگ کی جائیگی تمام ایس او پیز پر عمل کرانے کے بعد بھی اگر کسی ادارے میں کورونا پھیلنے کی اطلاع ملی تو ادارہ بندکردیا جائیگا اسی طرح محفوظ طریقے کو یقینی بنانے کیلئے کلاس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائیگا تاکہ آدھی کلاس سماجی فاصلہ رکھ کر پڑھائی کر سکے طلبہ آدھے ایک دن اور آدھے دوسرے دن آئینگے اس طرح ہر گروپ کو ایک دن بعد چھٹی ہوگی

 

اس طریقے سے طلبہ کیا سیکھ پائیں گے یہ اندازہ ہو جاتا ہے نہ تو تعلیم میں رابطہ برقرار رہے گا اور نہ ہی طلبہ کچھ سمجھ پائینگے لیکن والدین کی اکثریت اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان جلد ازجلد ادارے کھولنے کے حق میں ہیں طلبہ کیلئے جو ایس او پیز جاری کئے گئے ہیں ان میں ویگنوں یا بسوں میں بھی فاصلہ رکھنے کا اہتمام ضروری ہے جو عملی طورپر ناممکن ہے مگر اس پر عمل نہ ہونے کے باوجود کرایوں میں اضافہ کردیا جائے گا اس تمام کی بجائے اگر ایک سال ہی تعلیم سے منہا کردیا جاتا تو یہ تعلیم کے معیار کیلئے زیادہ بہتر ہوتا اب جو طلبا اس عرصہ میں پروموٹ ہونگے یا بغیر امتحان کے پاس کئے گئے ہیں ان کے پاس مطلوبہ تعلیم نہیں ہوگی

 

بالخصوص میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ تو اس ادھوری تعلیم کی کمی کا اپنی آئندہ تعلیمی سفر میں احساس رہے گا مگر وہ اس کا تدارک نہیں کر پائینگے حکومت نے تو یکساں نصاف نافذ کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے لیکن کیا آکسفورڈ کا نصاب ختم ہو جائے گا اور پاکستان میں صرف ایک ہی نصاب پڑھایا جائیگا یہ واضح نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے ہمارا تعلیمی ڈھانچہ ہی معیاری تعلیم کی ضمانت نہیں دیتا خود فیصلہ ساز بھی اپنے نظام تعلیم پر اعتماد نہیں کرتے تعلیم کو معیاری اور سستا کرنے کیلئے پہلے بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنا ضروری ہے اساتذہ کی تربیت کا معیار پہلے بہتر کرنا ہوگا صرف عمارتیں بنانے سے تعلیم عام نہیں ہو سکتی اس کیلئے پہلے استاد کو استاد بنانا ہوگا جو احساس ذمہ داری کے ساتھ نئی نسل کو تیار کریں یہ کام صرف اعلانات سے ممکن نہیں اب تو صرف یہی دعا ہے کہ تعلیمی ادارے کھل جائیں اور ہمارے بچے خطرناک بیماری سے محفوظ رہیں۔