اصل حادثہ

حادثہ یہ نہیں تھا کہ فیکٹری میںآ گ لگی یا لگا دی گئی بلکہ حادثہ یہ تھا کہ ایک مخلوقِ خدا سڑک کنارے کھڑی جلتے لوگوں کی چیخیں سن رہی تھی مگر کوئی اُن کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ حادثہ یہ نہیں تھا کہ سڑک پر کھڑے ٹریفک آفیسر کو ایک صاحب حیثیت شخص کی گاڑی نے کچل دیا بلکہ حادثہ یہ ہو ا کہ سی سی ٹی کیمرے کی فلم کو جھٹلا دیاگیا اور کہا گیا کہ حادثے کا کوئی گواہ نہیںہے اس لئے صاحب حیثیت شخص کو با عزت بری کیا جاتا ہے۔ حادثہ یہ نہیں تھا کہ ایک اکیلی عورت کو دو غنڈوں نے سڑک کنارے کھڑی گاڑی کا شیشہ توڑ کر باہر گھسیٹ کر نکالا اور اُس کے بچوں کے سامنے اُس کو تشددکا نشانہ بنایا بلکہ حادثہ یہ ہوا کی کئی دنوں تک اس واقعے کو نمک مرچ لگا کر ٹی وی اور ریڈیو کی خبروں کی زینت بنایا گیا ہم مشرقی اقدا ر کے حامل لو گ ہیں جہاں ایسی باتوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے

 تا کہ وہ بچیاں یا عورتیں یا اُن عورتوں کی اولاد کو ساری عمر اس بات کے طعنے نہ سننے پڑیں ایسی باتوںکی تشہیر مغربی معاشرے میں تو ہوتی ہے اور اس کا کوئی برا بھی نہیں مناتا مگرہمارے ہاں تو ایسی باتوں پر قتل مقاتلے ہوجاتے ہیں مگر یہاں تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے انتہائی ڈھٹائی سے پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور پولیس آفیسر کی بات کو اچھالا جا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس طرح پولیس افسر کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر اُس مظلوم عورت کی تشہیر ضرور ہو رہی ہے کہ جس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ہم یہ نہیں سوچتے کہ اگر خدا نخواستہ ہمارے ساتھ ایسا حادثہ پیش آیاہوتا تو کیا ہم اسی طرح اس کی تشہیر کر رہے ہوتے ۔ شاید کبھی نہیں اور اگر ہم اپنے لئے یہ بات پسند نہیں کرتے تو پھر دوسروں کے ساتھ یہ کیوں پسند کر رہے ہیں۔ اگر یہ پولیس کیس ہے تو پولیس کو اپنا کام کرنے دیںہم کس لئے بابے بنے ہوئے ہیں۔ حادثات تو ہر روز ہو رہے ہیں مگر اس بات کاخیال رکھا جا رہا ہے

 اور حکومت نے بھی اس بات سے منع کر رکھا ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں لاشوں کو ٹی وی پر نہیں دکھانا بلکہ جب تک لاشوںکو اٹھا نہیں لیا جاتا اُس جگہ کی ٹی وی کوریج بھی نہیں کرنی۔ یہ اسی لئے ہے کہ اس کا ناظرین پر برا اثر پڑتا ہے۔ تو کیا ایک ایسے واقعہ کا کہ جس میںکسی کی عزت کا سوال آ جائے تو اس کی تشہیر کرنی ضروری ہے۔ ہم حکومت سے بھی یہ گزارش کریں گے کہ ایسے واقعات کی تشہیر پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔ ایک اور بات عرض کرنی تھی کہ ہماری بی آر ٹی پر چلنے والی بسوں میں آتشزدگی کے دو واقعات ہو چکے ہیں۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا ہے کہ نئی بسوں میںجو ایک ایسے روٹ پررواں ہیں کہ جہاں کسی قسم کے حادثے کا تصور بھی نہیں ہے وہا ں کیوں ایسا ہو رہا ہے۔ہمارے ذہن میں کچھ اندیشے سر اٹھا رہے ہیں اللہ کرے کہ ہم بالکل غلط ہوں مگر ہمارے ہاںایساہو چکا ہے۔

 اگر یاد ہو تو ہمارے ہاںایک حکومتی سروس جی ٹی ایس کے نام سے ہوا کرتی تھی جو ایک کامیاب ترین سروس تھی اور صوبے کے کونے کونے تک یہ سروس کا م کرتی تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بی آرٹی جیسے بڑے منصوبے سے حل ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں اور اس منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے جو بھی اقدمات اٹھائے جا سکتے ہیں اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر یہ حادثاتی طور پر ہورہا ہے تو پھر بھی اس کا سد باب کیا جاسکتا ہے اور اگر اس میں کوئی غفلت کا مرتکب ہورہا ہے تو بھی اس کی نشاندہی ضروری ہے۔

 یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان چند واقعات کے بعد کمپنی کے نمائندے پشاور آچکے ہیں اور انہوں نے اس مسئلے کا سراغ لگانے کیلئے تحقیقات کا آغا ز کر دیا ہے۔ کسی بھی مشینری کا خراب ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس کو بہت اچھالا جائے مگر اس کا تعلق ایک ایسے شعبے سے ہے جس پر عوامی بہبود کا انحصار ہے اس لئے اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ تنقید برائے تنقید کی بجائے یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اب یہ ایک عوامی منصوبہ ہے اور اس کو کامیاب بنانا نہ صرف حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے بلکہ عوام کو بھی اسے قومی اثاثہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنا اثاثہ سمجھتے ہوئے اس کے استعمال میں تمام ضروری احتیاطوں کی پابندی کرنی چاہئے۔