جب ملک بھر میں سڑکوں کاجال بچھا دیا گیاہے اور اس کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے اور لوگوں کی اتنی استطاعت ہو چکی ہے کہ وہ ذاتی ٹرانسپورٹ استعمال کر سکتے ہیں اور اب اس میں وقت کی قید تو ختم ہی ہو جاتی ہے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اپنی گاڑی لے کر کسی بھی شہر سے دوسرے شہر کو جا سکتا ہے۔ یہ تو پبلک ٹرانسپورٹ کی بات تھی کہ آپ کے لئے ایک خاص وقت کے بعد سفر ممکن نہ تھا ۔ اس میں بھی لاہو‘ر اولپنڈی ‘لاہور اورکراچی کی ٹرانسپورٹ کواستثنیٰ حاصل تھا کہ یہ رات کے کسی بھی حصے میں چل سکتی تھی اور اسی لئے عام طور پر رات کو سفر کرنے والی بسوں کو ڈاکوﺅں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور کسی بھی سنسان سڑک پر دوڑتی گاڑی کو روک کر مسافروں کا بوجھ ہلکا کر دیا جاتا تھا۔ اب جو ٹرانسپورٹ میں اضافہ ہوا تو کسی بھی دو شہروں کے درمیان کی سڑکیں اُ س طرح سنسان نہیں ہو تیں کہ جیسے آج سے دس بیس سال قبل ہوا کرتی تھیں۔
اس کے ساتھ ہی بڑے شہروںکے درمیان موٹر وےز کا رواج پڑ گیا ہے جس پر انتہائی تیز رفتاری سے خصوصاً رات کے وقت گاڑیاں دوڑائی جا سکتی ہیں اور دوڑائی جا رہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ٹریفک کا اتنا اژدھام ہو گیا ہے کہ آپ کو دن رات کے کسی بھی پہر کوئی بھی بڑے شہروں کو ملانے والی سڑک خالی نہیں ملتی ‘ہم آج سے پندرہ بیس سال قبل راولپنڈی سے لاہور کا سفر کرتے تو راولپنڈی سے بس رات کے سات آٹھ بجے روانہ ہوتی اور صبح چھ سات بجے لاہور پہنچتی او ر سارے راستے میں ایک آدھ کو ئی گاڑی یاعموماً ٹرک آتے جاتے پائے جاتے ۔ اسی لئے اُن دنوںبسوں کو سنسان جگہوں پر روک کر مسافروں کو ہلکاکر دیا جاتا تھا مگر یہ بھی بہت کم ہوتا تھا کیونکہ کچھ لوگوں کی بے کاری کا یہی مشغلہ ہوتا تھا کہ اپنے شب و روز کے گزارے کے لئے مسافروں سے اپنا حصہ وصول کرلیا جا تا تھا۔ اس دور کے لٹیرے بھی کافی شریف واقع ہوتے تھے
کہ کسی بھی مسافر کی جیب سے اگر تنی رقم نکلتی کہ جو صرف اُس کی لاہور یا رولپنڈی پہنچ کرناشتہ کرنے کے لئے ہوتی تو وہ اُس مسافر کو یہ رقم واپس کر دیتے تھے تا کہ منزل پر پہنچ کر بھوکا نہ رہ جائے۔ اب تو بسوں کی رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر اُن کو راستے میں روکا بھی جائے تو اُن کے رکتے رکتے وہ ڈاکوﺅں کی پہنچ سے باہرہو جاتی ہے‘ اسلئے یا تو ڈرائیوروں سے ایکا کر لیاجاتاہے او روہ خاص مقام پر پہلے سے ہی گاڑی کی رفتار کم کردیتے ہیںیا کوئی قسمت کا مارا اپنی گاڑی راستے میں خراب کر بیٹھتا ہے تو وہ ایک آسان ہدف بن جاتا ہے وہ بھی یوں کہ اُسکا جیب بھرا ہو ورنہ اس بات پر مار کھا لیتا ہے کہ سفر پر نکلتے ہوئے اُس نے اتنی رقم اپنے پاس کیوں نہیں رکھی کہ جو اُس کو اِس مشکل وقت میں کام آتی۔
تا ہم ایسے واقعات اب بھی ہورہے ہیں صرف وہ گاڑیاں جو راستے میں سڑک پر رکھی گئی جھاڑیوں کو کراس نہیں کر سکتیں وہ بے روزگار افراد کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہیں ‘ایسے واقعات اب بھی لمبے روٹوں والی گاڑیوں کو پیش آ رہے ہیں اور اس لئے بھی کہ اب ساری مخلوق کے لئے نوکریوں کا بندو بست تو نہیں کیا جا سکتا اسلئے بہت سے لوگ سیلف ایمپلائمنٹ کی طرف نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔
خود سوچیں کہ ایک شخص یا گروہ اپنی نیند حرام کرتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ راہ پہ آتے جاتے کا بوجھ ہلکا کر کے اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے تو یہ کمائی بھی تو حلال کی ہی ہوئی نا۔ کون اتنی محنت کر کے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر چار پیسے کماتا ہے۔ اسے ہی تو خون پسینے کی کمائی کہتے ہیں اس لئے کہ اس میں خون ہونے کا اندیشہ بھی تو بدرجہ اُتم موجود رہتا ہے۔ایسے میں اگر کسی اکیلی عورت کی گاڑی ایک سنسان سڑک پر آدھی رات کو خراب ہو جاتی ہے اور اس کو بر وقت ا مداد نہیں مل پاتی تو اس کے ساتھ وہ کچھ ہو جاتا ہے کہ جو چند روز پہلے ہوا اور جس کی گونج ابھی تک حکومتی ایوانوں میںاور پولیس کے تھانوں میں جاری ہے تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔