تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد

کورونا کے ڈر سے جو تعلیمی ادارے بند ہوئے تو اُس کی کمی نے حکومت کو اتنا حوصلہ دیا کہ وہ تعلیمی ادارے کھول دئیے ۔اس لئے کہ آٹھ مہینوں میں طلباءکا جو تعلیمی نقصان ہوا ہے اُس کا کچھ نہ کچھ مداوا ہو سکے۔ گو اب سردیوں کے تعلیمی اداروںکے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ سیلکٹڈکورس بھی پڑھا سکیں اس لئے کہ ایک تو طلباءکی جس طرح حاضریوں کی ترتیب رکھی گئی ہے اس میں سلیبس کا مکمل کرنا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں، اس لئے کہ اب ایک ماہ کی پڑھائی کامطلب پندرہ دن کی پڑھائی ہے اس لئے کہ کسی بھی کلاس کے آدھے طلباءایک دن پڑھیں گے اور دوسرے آدھے دوسرے دن پڑھیں گے یعنی دو دن میںایک ہی کلا س پڑ ھ پائے گی۔

 اس طرح طلباءکو مہینے میں چھٹیاں نہ کرکے بھی پندرہ دن پڑھائی کو ملیں گے۔ اس میں جو سیلکٹڈ کورس رکھا گیا ہے وہ کتنا پڑھایا جا سکے گا؟۔ اب سرد علاقوں کے تعلیمی اداروں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ادھر 15 دسمبر کے بعد اور یکم مارچ سے قبل پڑھائی ممکن ہی نہیں ۔ اس لئے کہ سردی اس قدرہوتی ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں میں تو پڑھائی کا سوال ہی پید نہیں ہوتا۔ ان دنوں میں طلباءکو سرکاری سکولوں میں بلانے کاتو صاف یہ ہے کہ طلباءکو نمونیہ کے حوالے کر دیا جائے۔اس لئے کہ سرکاری سکولوں کی حالت یہ ہے کہ پہلے تو کمرے ہی اس قدر نہیں ہیں کہ سارے طلباءکو ان میں بٹھایا جا سکے اور دوسرے جو کمرے ہیں بھی اُن کی حالت یہ ہے کہ کسی کمرے کا دروازہ نہیں ہے اور کسی کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ان میں طلباءکو سردی سے بچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہمیں طلباءکو اس سردی سے کہ جو گلیات، چترال ، دیر ،سوات اور بہت سے قبائلی سکولوں میں کہ جس کڑاکے کی سردی ہوتی ہے اس میں طلباءکو کیسے سنبھالیں گے۔

 اس کا مطلب یہ کہ خیبر پختونخوا کے بیشتر سکولوں میں ان دنوں پڑھائی ممکن ہی نہیں ہے۔ تو حساب کیا جائے تو ان سکولوں کے بچوں کےلئے پڑھائی کے لئے مارچ تک صرف ڈیڑھ مہینے ہیں اور مارچ کے بعد تو امتحانات کے دن آ جاتے ہیں ۔ ان میں بھی پڑھائی نہیں ہو سکتی اس طرح سردیوں کے ان سکولوں کے طلباءکے لئے صرف ڈیڑھ مہینہ ہے کہ وہ کچھ سلیبس کور کر سکیں ۔ اس کے بعد یہ کیا امتحان دیں گے اور ان کی کیا اسسمنٹ ہو گی۔ یوں سمجھئے کہ ان طلباءکا یہ سال تو ضائع ہی ہے۔ حکومت نے یہ اعلان تو کر دیا ہے کہ طلباءکے لئے کوئی چھٹی نہیں ہے مگر ان طلباءکا کیا کریں گے کہ جہاں سردیوں میں بندہ گھر سے باہر بھی قدم نہیں رکھ سکتا۔ چہ جائے کہ ٹوٹے پھوٹے سکول کے کمروں میں سارادن بیٹھ کر پڑھائی کرے۔ جہاں بند کمروں میں چوبیس گھنٹے آگ جلائے رکھنے اور رضائیاںاوڑھے رکھنے کے باوجود سینکڑوں نمونیے کے کیسز ہوتے ہیں وہاں درسگاہوں کے ٹوٹے پھوٹے کمروں میں جہاں کمرہ گرم کرنے کا کوئی بندوبست بھی نہ ہو وہاں کوئی کیا پڑھے گا اور کیا پڑھائے گا۔

 لگتا یہی ہے کہ یہ سال طلباءکا ضائع ہی ہوا۔ ہاں اگر ایسا ہو سکے کہ سیشین کو زیادہ لمبا کریں اور سردیوں کی درسگاہوں میں بھی طلباءکو پڑھائی کا اتنا وقت مل سکے کہ وہ کسی طرح اگر پورا نہیں تو دوتہائی سلیبس ہی پورا کر سکیں تو بات بن سکتی ہے ۔ یعنی اس دفعہ کا سیشن مئی جون تک لے جایا جائے اور جولائی میں امتحانات ہوں اور نئی کلاسیں مڈل ستمبر سے شروع کر دی جائی تو بات بن سکتی ہے اس طرح یہ پہاڑی درسگاہوں کے بچے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ ہی سکیں گے۔ ہمارے تعلیمی وزرا اور دیگر اعلیٰ حکام اس بات کو بھی مد نظر رکھیں اور اس کے لئے کوئی مناسب طریقہ سوچیں تو ان طلباءکا بھی کام چل سکے گا ورنہ ڈیڑھ مہینے میں اتناسارا کورس مکمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

چنانچہ ہم اپنے حکام بالا سے یہی گزارش کریں گے کہ وہ صرف میدانی درسگاہوں کا ہی نہ سوچیںوہ پہاڑی درسگاہوں کے متعلق بھی قابل عمل طریقہ سوچیں تاکہ ان بچوں کا مستقبل بھی بچ سکے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ جب بھی کوئی لائحہ عمل بنایا جائے تو دونوں علاقوں کے آفیسروں کواعتماد میں لیا جائے انگریز نے جو تعلیمی نظام بنایا تھا تو اس کے لئے اُس نے سب علاقوں کو مد نظررکھا تھا اسی لئے چھٹیوں کے شیڈول اس طرح بنائے گئے کہ کسی بھی علاقے کے طلباءکا ہرج نہ ہو ۔جب گرمیوں کی چھٹیاں ہو تی ہیں تو سردیوں والے سکول کھلے ہوتے ہیں اور جب سردیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو گرمیوں والے سکول کھلے ہوتے ہیں اور کسی بھی علاقے کا سلیبس امتحانات کے وقت غیر مکمل نہیں ہوتا۔