کچھ واقعات یا درست الفاظ میں سانحات ایسے ہوتے ہیں جن پر کچھ لکھنا یا تبصرہ کرنا بھی قلم کوخون میںڈبونے کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جس دہرے معیاراور تضاد کا شاہکار ہے اس پر کسی ایک حکومت یا کسی خاص طبقے پر الزام نہیں لگایاجاسکتا۔ ہر کسی نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کوتاہی کی اور دن بدن، سال بہ سال حالت بگڑتی گئی۔ گزشتہ ہفتے لاہور کے قریب موٹروے پر پیش آنےوالا سانحہ اس نوعیت کا پہلاواقعہ نہیں ہے، یہ تو ویران سڑک پر رات کے وقت معصوم بچوں کے ساتھ ایک خاتون تھی۔ہمارے ہاں گھر میں بیٹھی، سکول‘ مدرسے ،یونیورسٹی جاتی اور گلی میںکھیلتی بچی بھی محفوظ نہیں تو اس میںانتظامی کمزوری سے زیادہ تعلیم و تربیت کی کمی کا قصور ہے اور اگر کوئی انتظامی کوتاہی ہے تو وہ فحاشی کی تشہیر ار آزاد معاشرے کی ترویج پرقابو پانے میںکوتاہی ہے‘جب سے انٹرنیٹ اور میڈیا نے دنیاکوسرحدوں سے آزاد کیا ہے‘ ہر طرح کی فلمیں، ڈرامے اور غیر اخلاقی ویب سائٹس عام رسائی میں آگئی ہیں اور یہ سب کچھ موبائل فون کے ذریعے ہر ایک کی دسترس میں آیاہے
اور اس پر عورت کو آزادی کے نام پر مردوں نے جس طرح استحصال کا نشانہ بنایا ہے اس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوا۔ جس مغرب نے عورت کو آزاد کرنے کی تحریک شروع کی۔ آج وہاں عورت سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے۔ ہم اس کی حالت دیکھ کر عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کی تقلید کو ترقی کا زینہ سمجھنے لگے ہیں۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہمارا اصل المیہ دہرا معیارہے۔ ماضی کے مقابلے میں زیادہ مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں اور جن میںجذبہ ایمان سے سرشارلاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر اخلاقی ویب سائٹس دیکھنے و الے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ کہا جاتاہے کہ ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات میں سزاﺅں کی کمی اور عدالتی نظام میں خرابی سے مجرموں کے بچ جانے کا بھی ہاتھ ہے یہ کسی حد تک درست ہے مگر تین سال پہلے قصور کی ایک بچی زینب کے کیس میں مجرم کو چندہ ماہ میںپھانسی ہوگئی تھی۔
اس کے بعد بھی جرائم میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات میں اکثر بچی کے قریبی رشتہ دار یا جاننے والے ملوث ہوتے ہیںاور اسی لئے کچھ عرصہ بعد یہ مقدمات صلح پر ختم ہوتے ہیں۔ موٹروے سانحہ کا ایک مشتبہ ملزم جس کے متاثرہ خاتون کے ساتھ ڈی این اے میچ کر گئے ہیں۔ اس کے بارے میں بنایاگیا ہے کہ 2013 میں بھی وہ اس طرح کے کیس میں ملوث پایا گیا تھا لیکن اس کیس میں متاثرہ خاندان سے صلح کی بنیاد پر وہ بری ہوگیا تھا حالانکہ ایسے مقدمات میں ریاست کو مدعی ہونا چاہئے اور ہر حال میں سزا ملنی چاہئے۔ عام شہری عزت پامال ہونے کے باوجود جرائم پیشہ افراد سے دشمنی پالنے سے ڈرتے ہیں اور پولیس ہی ان کوصلح پر بھی مجبور کرتی ہے اور اس میں کسی صوبے یا شہر کی پولیس میں زیادہ فرق نہیں۔ حالیہ سانحے اور کراچی میں مروہ نامی بچی کے مجرم گرفتار ہو چکے ہیں اب ضروری ہے کہ وہ عبرت نام سزا بھی پائیں تاکہ ایسے گھناﺅنے جرائم کیلئے خوف پیدا ہو مگر معاشرے کو سدھارنے کیلئے معاشرے کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا جن میں والدین کا اپنے بچوں کی سرگرمیوں پرنظر رکھنا اور موبائل فونز و سوشل میڈیاکے ذریعے ان کے روابط کے بارے میں جانناضروری ہے ۔
دیکھا جائے تو تعلیم و تربیت وہ دو اہم شعبے ہیں جس پر یکساں توجہ دینے کی ضرورت ہے تعلیم کے لئے اداروں کا وجود ضروری ہے تو تربیت گھر سے لے کر اداروں تک تمام معاشرے کی ذمہ داری ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں وہ جرائم زیادہ ہوتے ہیں جس میں تعلیم سے زیادہ تربیت کی کمی کا کردار ہوتا ہے آج تک ہر سطح پر تعلیم کی کمی اور ناخواندگی کے خاتمے کے لئے مشورے دیئے جاتے ہیں اور اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں تاہم باوجود اس کے تربیت کی کمی سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں جس طرح کے واقعات کا تذکرہ شروع میں کیا گیا اس کا تدارک تب ہی ممکن ہے جب پورے معاشرے میں ایسے واقعات کے خلاف منظم کوششیں کی جائیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے تمام پہلوﺅں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔