بات کرتے ہیں قانون کی عملداری کی‘ بڑی اچھی بات ہے قانون کی عملداری ہونی چاہئے اور یہ بھی کہ ہماری اسمبلیوں کاکامیہی ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے بھی کوشاں ہوں اور عوام کےلئے بہتر قانون سازی بھی کریں۔ قانون سازی میں ایک بڑی بات جو ہونی چاہئے اور نہیں ہو رہی،وہ یہ کہ کسی بھی طرح کی قانون سازی کے لئے اصول یہ ہونا چاہئے کہ جو بھی قانون اسمبلی سے پاس کروانا ہے اُس کا مسودہ تیار کرکے اُسے ممبران اسمبلی کو دے دینا چاہئے اور اس کے بعد اتنا وقت اراکین اسمبلی کو دیا جائے کہ وہ مسودے کو اچھی طرح پڑھ لیں ۔ اُس کے ان اینڈ آو¿ٹ کو اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر اس مسودے پر اسمبلی میں بحث ہو اور اس بحث کے بعد جوبھی ترامیم مناسب ہوں کی جائیں اور پھر اس مسودے کو پاس کیاجائے اور باقاعدہ قانون کی شکل دے دی جائے۔ اسمبلیوں کا وجود اسی لئے ہے اور اگر حکومت کوئی قانون اپنی اکثریت کے بوتے پر بغیر بحث کے پاس کرتی ہے ، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے تو یہ قانون دائمی نہیں ہونگے۔
حکومتی پارٹی ظاہر ہے کہ اکثریتی پارٹی ہوتی ہے اور یہ جو کسی وقت قانون بنا دیا گیا ہے کہ اسمبلی کے اراکین اپنے لیڈر کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور جو وہ کہے گا اُس پر ہی ووٹ کرنے ہوں گے تو اس طرح سے قانون سازی جو ہو رہی ہے وہ کسی بھی طرح دائمی قانون سازی نہیں ہو گی۔ کل کو اگر دوسری پارٹی اقتدار میں آ جاتی ہے تو وہ ان قوانین کو ختم کر دے گی جس سے اس اسمبلی کی افادیت مجروح ہو گی ۔اسی لئے کہتے ہیں کہ جو بھی قانون بنایا جائے وہ عوام کو سامنے رکھ کر بنایا جائے نہ کہ اپنی پارٹی کو سامنے رکھ کر بنایا جائے۔ جو بھی قانون عوام کو مد نظر رکھ کر بنایا جائے گا اور اُس کی اچھائی اور کمزوری پر بحث کرنے کے بعد اور اس میں ضروری ترامیم کرنے کے بعد اسمبلی سے پاس ہو گا یعنی اس میں دونوں اطراف کے رائے شامل ہو گی تو یہ قانون دائمی ہو گا اور ملک کےلئے فائدہ مند ہو گا۔ اسمبلیوں میں اراکین کا ہونا اسی لئے ہے کہ جب ملکی مفاد میں قانو ن سازی کی جائے تو اس پر پوری طرح بحث مباحثہ ہو اور اس میں اگر کوئی سقم ہے تو وہ اس بحث مباحثے کے بعد دور کر دیا جائے
اور اُس کے بعد اس کو لاگو کیا جائے تو یہ قانون دائمی ہو جائے گا اور اس میں ساری عمر کےلئے ترمیم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔لیکن اگر ایسا قانون اپنی اکثریت کے زور پر پاس کیاجائے گا تو یہ وقتی ہو گا اور جلد ہی اس کو ختم کرنے کی ضرورت پڑجائے گی یا اس میں ترمیم کی ضرورت پڑ جائے گی اس لئے کہ ا گر حکومتی پارٹی اپنی اکثریت کے زور پر ایک قانون منظور کروائے گی تو اس میں لا محالہ سقم ہو گا اس لئے کہ جو پارٹی اکثریت میں ہے اور اکثریت کی وجہ سے حکمرانی کر رہی ہے وہ جو بھی قانون بنائے گی اُس میں اپنی پارٹی کا فائد ہ دیکھ کر بنائے گی ۔ایسا قانون عوامی نہیں ہوگا اور اس کو جب بھی دوسری پارٹی بر سر اقتدار آئے گی اُسے ختم کر دے گی اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کا وقت کا ضائع کیا گیا ہے۔ عوام جو اپنے نمائندے چنتی ہے تو وہ اپنی اور ملک کی بہتری لئے چنتی ہے ۔ اور جب بھی وہ نمائندے اپنی اکثریت کی بنا پر بر سر اقتدار آتے ہیں تو وہ اب پارٹی کے نہیں رہتے بلکہ وہ ملک کے ہو جاتے ہیں بشمول حزب اختلاف کے۔ اس لئے جو بھی قانون سازی وہ کریں گے تو وہ اُن کی پارٹی کی نہیں ہو گی بلکہ وہ ملک کےلئے ہو گی۔ اس لئے قانون سازی کرتے وقت حزب اختلاف کی رائے لینا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔
یعنی قانون سازی میں دونوں طرف کے نمائندے شامل ہونے چاہیں۔جب قانون سازی ایسی ہو گی کہ جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی پوری رائے شامل ہو گی تو یہ قانون ملک کے لئے ہوگا۔ اور اگر اسے بلڈوز کر کے بنایا جائے گا تو وہ نہ تو عوامی فائدے میں ہو گا اور نہ دائمی ہو گا یعنی ایسا قانون بنانے میں صرف وقت کا ضیاع ہو گاایسے قوانین دیر پا نہیں ہوں گے۔کل کواگر حزبِ اختلاف اقتدار میں آتی ہے تو اسی طرح بغیر بحث کے ان قوانین پر پانی پھیر دے گی۔ یوں عوام کے نمائندے عوام کے دیئے گئے وقت کو بلا ضرورت ضائع کریں گے جو ہمارے نزدیک جمہوری نہیں ہو گا۔ اس لئے جو بھی قانون سازی کی جائے اس پر اسمبلی میں پوری طرح بحث کی جائے اور حزبِ اختلاف کی تجاویز کو شامل کیا جائے اور باقاعدہ طریقے سے اسے لاگو کیا جائے۔