کسی بھی معاشرے میں اچھائی اور برائی کے عناصر موجود ہی رہتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر معاشرہ برائی کے عناصر سے دبنے لگے کہ جو عام طور پر ہوتا ہے تو پھر اس معاشرے میں برائی کا احترام زیادہ ہو جاتا ہے۔یہ احترام گو دل کی گہرائیوں سے تو نہیں ہوتا مگر جتنا کچھِ، دکھاوے کے لئے ہی سہی، ہوتا ہے اُس کے اِس کے پھیلنے کی رفتار بڑ ھ جاتی ہے۔ جب چھوٹے بچے دیکھتے ہیں کہ ایک برے آدمی کی عزت زیادہ کی جاتی ہے تو وہ فطری طور پہ اس جانب مائل ہو جاتے ہیں۔یوں معاشرے میں برائی پھیلتی جاتی ہے اور یہ بھی کہاجا تا ہے کہ انسانی فطرت کا ایسے کاموں کی جانب زیادہ جھکاؤ ہو تا ہے۔گو یہ قابل تعریف تو نہیں ہے مگر ایسا ہوتا ہے۔ہم چونکہ دیہاتی ہیں ا ور دیہات میں دیکھا یہی گیا ہے کہ گاؤں کے چوہدری بھی ایسے لوگوں کو اپنے ہاں زیادہ پذیرائی دیتے ہیں چاہے وہ اپنی عزت بچانے کے لئے ہو یا اپنے کام نکلوانے کے لیئے اور دیگر لوگ بھی ایسے لوگوں سے دبکے دکھائی دیتے ہیں اور یہ چیزیں جب بچے دیکھتے ہیں تو وہ ایسے لوگوں کو آئیڈلائز کر لیتے ہیں۔ ایک اور بات کہ ایسے لوگوں کی بات چونکہ تقریباً ہر ہی گھر میں کی جاتی ہے اس لئے بھی یہ لوگ نوجوانوں کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو بھی پڑھائی کی طرف جانے کا خیال آیا تو تعلیم کے عام ہونے سے ایسی برائیوں کا بھی خود بخود خاتمہ ہونے لگالیکن اب بھی چونکہ ان پڑھوں کی تعدا د کافی زیادہ ہے اس لئے گاہے بگاہے چوری چکاری کی واداتوں کا سناہی جا رہا ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی بڑھ گئی ہے کہ چونکہ سارے پڑھے لکھے لوگوں کو حکومت وقت نوکریاں نہیں دے پاتی اور یوں پڑھے لکھے بے روزگار لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو ان کو دوسرے راستے اختیار کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یو ں بھی،ملک میں برائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بات زیادہ پھیلی جائے خصوصاً کوئی بری بات ٗتو نوجوانوں میں ایک تجسس کا عنصر جاگ پڑتا ہے کہ دیکھیں کہ ایسا کرنے سے کیاہوتا ہے ٗآپ کو یاد ہو گا کہ ایک بچی پر تشدداور اس کے قتل کے بعد ا س بات کا بہت زیادہ چرچا ہوا تھا۔ہر جگہ پر اس کا تذکرہ ہوتا تھا ٗاس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد آج تک سینکڑوں بچیاں اور معصوم بچے ان زیادتیوں کا شکار ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں جن میں سینکڑوں تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح گزشتہ روز لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر بھی ایک خاتون کو بچوں کے سامنے تشدد کانشانہ بنایا گیا ٗاسی لئے ہماری رائے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ایسے واقعات کو پولیس تک ہی چھوڑا جائے تو بہتر ہو اس لئے کہ پولیس کے تھانوں سے ایسی بات بہت کم باہر نکلتی ہے اور جب کوئی بدبونہ پھیلے تو کسی کو ناک سکیڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس واقعے کے بعد کے پولیس کے رویئے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور یہ بھی شنید ہے کہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پرحفاظتی انتظامات کیلئے تو حکومت نے اربوں روپے جاری کئے ہیں مگر وہ رقوم کس مد میں چلی گئیں کہ ابھی تک حفاظتی اقدامات کی صورت میں کوئی بھی کام نہیں کیا گیا ٗہمارے وزیراعلی پنجاب تو اس معاملے میں بہت تیز ہیں اور کسی بھی کرپشن کے کیس کو وہ معاف کرنے والے نہیں اس لئے امید تویہی ہے کہ اس معاملے کو دیکھیں گے اور جو بھی اس کا ذمہ دار ہو گا تو اُسے پوچھیں گے ضرور۔ موٹروے واقعے کا حکومت نے سخت نوٹس لیا ہے اور ملزمان کی گرفتاری اور انہیں نشان عبرت بنانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں ٗ آئندہ کے لئے ایسے واقعات کے تدارک کے لئے بھی حکومت کی طرف سے تیزی سے مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں ٗگزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موٹر وے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشددکے ملزمان کو عبرتناک سزائیں دینے کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ جب سے یہ حادثہ ہوا ہے تو ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کے لیے ایک قانون سازی کی جائے تاکہ آگے سے نہ صرف ہماری خواتین بلکہ بچوں کو بھی تحفظ ملے۔اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے تشدد کے واقعات روکنے کے لئے تیزی سے کئے جانے والے اقدامات کا ہر طبقہ فکر کی طرف سے خیرمقدم کیا جا رہا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ تشدد میں ملوث ملزمان کو جلد کیفرکردار تک پہنچا کر مظلوم خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنا دی جائیگی۔