قومی سیاست اشتعال اور انتشار کی راہ پر۔۔۔

سیاست کا مقصد ملک کی بہبود اور قوم کی یکجہتی ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں سیاست الٹے راستے پر گامزن ہو چکی ہے‘ اپوزیشن کی 11 جماعتوں کا اتحاد، پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے نام سے وجود میں آچکا ہے، اگرچہ اس میں شامل جماعتیں اس وقت بھی ایک دوسرے سے نظریاتی اور سیاسی اختلاف رکھتی ہیں‘ مگر حکومت کو گرانے کے ایک نقطہ پر متحد ہیں. حکومت کو یہ کمزور کر پائیں گے یا نہیں‘ اس میں شکوک ہیں مگر یہ طے ہے کہ جس گھن گرج سے تحریک کی شروعات ہوئی ہے، اس سے عوام کی مشکلات ضرور بڑھ جائیں گی دوسری طرف حکومت بھی کسی مصالحت کے موڈ میں نظر نہیں آرہی وفاقی وزراء اپوزیشن پر پہلے تو کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات لگاتے تھے، مگر اب ملک دشمنی اور غداری کے الزامات لگنا بھی شروع ہو گئے ہیں مشکل یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آرہی، جو سیاسی مصالحت اور ماحول کو ٹھنڈا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ماضی میں بھی اپوزیشن کے اتحاد بنتے رہے ہیں۔ ان میں نوابزادہ نصراللہ مرحوم کا قائدانہ کردار نمایاں ہوتا تھا جو اپوزیشن جماعتوں کے درمیان توازن رکھتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ نوابزادہ نصراللہ کا حقہ، ان کی سیاست کا استعارہ تھا، جو آگ اور پانی کوملا کر نشہ دیتا ہے۔ ان کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی نے ایم ایم اے کو متحد رکھا اور ایک اتحاد میں جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی بھی موجود رہے اب اگر مولانا فضل الرحمن اپنا کردار معتدل رکھتے تو حقیقی قائد کا کردار ادا کر سکتے تھے لیکن وہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے پہلے دن سے ہی دشمنی کی حد تک مخالفت کر رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی طاقت کا مرکز ان کی جماعت کی سٹریٹ پاور ہے ‘ورنہ گزشتہ دنوں لاہور میں مسلم لیگ ن اور کراچی میں پیپلزپارٹی کے احتجاجی اجتماعات ناکام ہوگئے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس وقت ماحول کو گرم کرنے اور اشتعال دلانے میںکچھ حکومتی عہدیداروں کا بھی کردار ہے جو ایک طرف اپوزیشن رہنماو¿ں کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کو نیب کا معاملہ کہتے ہیں، لیکن دوسری طرف” فلاں کو نہیں چھوڑیں گے“ اور این آر او نہ دینے جیسے نعرے بھی لگاتے ہیں‘ دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات موجودہ حکومت سے پہلے کے ہیں اور عدالتیں ان کو ریلیف بھی دے رہی ہیں‘موجودہ حکومت میں جو کیس سامنے آئے‘ان پر ابھی ریفرنس دائر نہیں ہو سکے‘، جو باتیں اچھے ماحول میں پارلیمنٹ میں ہو سکتی ہیں، وہ اب سڑکوں پر ہو رہی ہیں‘ جہاں احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے مگر قومی المیہ یہ ہے کہ اس ماحول کو ٹھنڈا کرنے اور سیاست کو راہ راست پر لانے والی کوئی شخصیت موجود نہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیاست سے اگر مفاہمت اور تحمل و برداشت کامادہ ختم ہوجائے تو یہ نہ صرف ملک و قوم بلکہ خود اہل سیاست کیلئے بھی نقصان دہ ہے ۔ جمہوری نظام میں تمام امور خاص قواعد وضوابط کے تحت چلتے ہیں۔ اگر حکومت بنانی ہے تو بھی اس کے لئے قواعد اور طریقہ کار موجود ہے اور اگر حکومت گرانی ہے تو بھی اس کیلئے جمہوری نظام اور ملکی آئین نے راستے متعین کئے ہیں۔ اب اگراپوزیشن سمجھتی ہے کہ حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے تو اس کیلئے ایوان کے اندر سے کوشش کیوں نہیں کی جاتی او ر دوسری طرف اگر حکومت کو بھی اس ضمن میںجوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہئے۔ زیادہ بہتر اور صائب صورت یہی ہے کہ عوامی ووٹ سے منتخب حکومت کو کام کرنے دیا جائے اور اپنی مدت پوری کرنے کاموقع بھی ،تاکہ جب دوبارہ عوام سے رجوع کرے تو عوام کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے ٹھوس جوازموجود ہو۔