پشاور۔ سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کیس میں چار ہفتوں میں متعلقہ محکموں سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ کہاں ہے بلین ٹری سونامی کے درخت ہمیں تو ایک بھی نظر نہیں آیا،پشاور آتے ہوئے شاہراہ کے کنارے کوئی درخت نہیں صرف دھواں نظر آ رہا تھا۔
ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے آفیسرز کام نہیں کررہے سب کو فارغ کردینا چاہیے، آفیسروں کا کام خط لکھنا نہیں یہ بابو کاکام کیا ہے۔
پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور رجسٹری میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔
ڈی جی ماحولیات، سیکرٹری ماحولیات، سیکرٹری انڈسٹری اور ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے آفیسرز کام نہیں کررہے سب کو فارغ کردینا چاہیے۔
آفیسروں کا کام خط لکھنا نہیں یہ بابو کاکام کیا ہے آفیسرز اے سی میں بیٹھ کر کام کررہے ہیں، ہم پشاور آئے ہر طرف گرد ہی گرد دکھائی دے رہی ہے۔اتنی گرد ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور کا یہ ہال ہے دیگر شہروں کا کیا ہال ہوگا، یہاں تو اتنی فیکٹریاں بھی نہیں پھر بھی یہ صورتحال ہے، یہاں کورونا نہ بھی ہو تو ماسک پہننا ضروری ہے، کہاں ہے بلین ٹری سونامی کے درخت ہمیں تو ایک بھی نظر نہیں آیا، ہم رات کے وقت پشاور آرہے تھے تو بہت برے حالات تھے۔
، شام کے وقت ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا، آپ لوگ اس کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں، آپ تو کہہ رہے بلین درخت لگائے ہیں، آپ کے درخت کہاں پر ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم راستے میں آ رہے تھے تو کہی پر بھی ہمیں درخت نظر نہیں آئے، شاہراہ کے کنارے کوئی درخت نہیں صرف دھواں نظر آ رہا تھا، سیکرٹری ایسے سفید کپڑوں میں آئے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ کبھی فلیڈ میں گئے ہوں، یہ کام کے بندے ہوتے تو انکے کپڑے اتنے صاف نا ہوتے، یہ صرف خط لکھتے ہیں اور دفتر میں افسری کرتے ہیں۔
، ان تمام افسروں کو فارغ کر کے ایسے بندے لائے جائیں جو کام کے ہوں، پشاور میں ماحولیاتی آلودگی اتنی ہو چکی کہ یہاں ماسک کے بغیر کو ئی گھر سے نکل نہیں سکتا۔ عدالت نے چار ہفتوں میں متعلقہ محکموں سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔