صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے 'پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020' جاری کیا گیا ہے۔
صدر مملکت نے جزائر سے متعلق آرڈیننس 2 ستمبر 2020 کو جاری کیا تاہم اسے مخفی رکھا گیا۔
صدارتی آرڈیننس کے مطابق ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976 کے زیر انتظام ساحلی علاقے بھی وفاق کی ملکیت ہوں گے اور بنڈال اور بڈو سمیت تمام جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی جب کہ حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے ’پاکستان آئی لینڈز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی‘ قائم کرے گی۔
آرڈیننس کے متن میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کا ہیڈکوارٹرز کراچی میں ہوگا،علاقائی دفاتر دیگر مقامات پر قائم ہوسکیں گے۔
آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا قبضہ حاصل کرنے کی مجاز ہوگی اور آرڈیننس کےتحت اٹھائےگئے اقدام یااتھارٹی کےفعل کی قانونی حیثیت پر کوئی عدالت یا ادارہ سوال نہیں کرسکےگا۔
آرڈیننس کے متن میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی غیر منقولہ جائیداد پر تمام لیویز، ٹیکس، ڈیوٹیاں، فیس اور ٹرانسفر چارجز لینے کی مجاز ہوگی۔
صدارتی آرڈیننس کے مطابق وزیراعظم اتھارٹی کا پیٹرن ہوگا جو کارکردگی کے جائزے سمیت پالیسی ہدایات جاری کرے گا، حکومت چیئرمین سمیت 5 سے 11 ارکان پر مشتمل 5 سال کے لیے پالیسی بورڈ تشکیل دے گی اور حکومت گریڈ 22 یا مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کرے گی۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کے مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر بھی چیئرمین تعینات ہوسکے گا جب کہ چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی جس میں ایک بار توسیع ہو سکے گی۔
آرڈیننس کے مطابق پیٹرن، اتھارٹی، چیئرمین، ممبریا کسی بھی عہدیداریا ملازم کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکے گی، اتھارٹی ایک یا زیادہ رجسٹرار مقرر کرسکے گی اور رجسٹرار کو سول کورٹ کا اختیار ہوگا جو کسی فرد یا دستاویزات کی طلبی کا مجاز ہوگا۔
آرڈیننس کے متن میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کے زیر انتظام ایک فنڈ بھی قائم کیا جاسکے گا، اتھارٹی کو دس سال کے لیے آمدنی ،منافع اور وصولیوں پر ٹیکسوں کی چھوٹ ہوگی جب کہ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر 6 ماہ سے 7 سال تک قید اورجرمانہ کی سزائیں بھی دی جاسکیں گی۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سندھ حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر پر قبضے کی مخالفت کی ہے۔