کورونا کاخطرہ اور اپوزیشن کی تحریک

اگرچہ پاکستان میں کورونا کے پھیلنے کی رفتار بہت کم ہے لیکن اب بھی اوسطاً600 مریض روزانہ متاثر ہو رہے ہیں جبکہ سردیوں میں نئی لہر آنے کی بھی ڈاکٹر خبر دے رہے ہیں اب تعلیمی ادارے‘ شادی ہالز اور عوامی اجتماعات کے دیگر مراکز بھی کھل گئے ہیں اور یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ کسی جگہ حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا سکولز میں کسی حد تک عمل ہوتا ہے بچوں میں فاصلہ رکھنے کیلئے ایک دن چھوڑ کر آدھے آدھے بچے بلائے جاتے ہیں ماسک کی بھی پابندی ہے لیکن یہی بچے جس طرح پبلک ٹرانسپورٹ‘ وین یا سوزوکی وغیرہ میں آتے ہیں یہ عمل ساری احتیاط کا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے اگرپڑھے لکھے طبقے کو دیکھیں تو گزشتہ روز وفاقی ملازمین نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا یہ مراعات حاصل کرنے کیلئے تھا لیکن لگتا تھا کہ کورونا کی دعوت ہے اس دھرنے کوحکومت نے حسب معمول وعدہ فردا پر واپس تو کردیا لیکن کورونا کتنی چھوٹ دیتا ہے اس کی کوئی ضمانت نہیں اور اب ایک اور بڑی تحریک شروع ہو رہی ہے اگرچہ اپوزیشن میں جلسوں کی تاریخوں پر اختلاف ہے کوئٹہ کا پہلا جلسہ11اکتوبر سے18پر گیا پھر یہ جلسہ کراچی منتقل ہوگیا اور اب پھر کوئٹہ ہی ہوگا لیکن اس میں کورونا سے حفاظت کیلئے ایس او پیز پر کیسے عمل ہوگا اور کون عمل کرائے گا اس کا کچھ پتہ نہیں اور ان جلسوں میں صرف مقامی افراد نہیں ہونگے بلکہ دوسرے شہروں اور صوبوں سے بھی لوگوں کو جمع کیا جائیگا حکومت کے خلاف اپوزیشن کے جذبات اور تحفظات اپنی جگہ درست ہونگے لیکن عوام کی صحت کیساتھ کھیلنا کیا بڑی سیاسی جماعتوں کو زیب دیتا ہے جہاں تک حکومت کا تعلق ہے کہ دیگر انتظامی ابتری‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں تباہ کن کارکردگی کے باوجود کورونا کے تدارک اور پھیلاﺅ روکنے پر دنیا بھر سے تحسین حاصل کر رہی ہے اسکی جو بھی توجیح پیش کریں ہمارے عوام کی قوت مدافعت کا بھی بہت ہاتھ ہے کہ وہ اس وائرس کے خلاف طاقتور ہوگئی ہے حالانکہ ہمارے جیسے سماجی اور معاشرتی ماحول والے بھارت میں تباہی مچی ہوئی ہے اللہ ہم پر رحم کرے یہ شکر کا مقام ہے مگر وائرس کو پھیلانے کے اقدامات سے گریز بہت ضروری ہے اور ایسا نہ کرنا ناشکری کے زمرے میں آتا ہے اپوزیشن کو اپنی اجتماعی تحریک کو پارلیمنٹ تک محدود رکھنا چاہئے تھا دوسری بڑی خطرناک جگہ شادی ہالز ہیں جن میں احتیاط کا کوئی پہلو نہیں شادی کے موقع پر انسان ہر اچھی بات فراموش کردیتا ہے بے جا اسراف اور ہوائی فائرنگ کے اپنے منفی نتائج ہوتے ہیں فائرنگ پرپابندی بھی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہو رہی وہاں کورونا کی احتیاط کون اختیار کراسکتا ہے اگر ہالز کی انتظامیہ ماسک کے بغیر اندر داخل ہونے سے روکے بھی تو اندر جاکر سب نے کھانا کھانا ہے ماسک تو ضرور اترے گا اور چھینا جھپٹی بھی ہوگی اگرکچھ عرصہ یہ ہال بند ہی رکھے جاتے تو ممکن تھا کہ شادیوں میں سادگی کو بھی فروغ مل جاتا لاک ڈاﺅن کے عرصہ میں جو شادیاں ہوتی رہی ہیں وہ محدود مہمان بلا کر اور سادہ طریقے سے ہوتی رہی ہیں شادی ہالز کے مالکان پر ترس کھا کر ایک ایسا راستہ کھول دیا گیا ہے جو موجودہ حالات میں عوام کی جیب اور صحت کیلئے خطرناک ہے بہرحال اس وقت ہمیں اپنے طورپر ہر ممکن احتیاط کرنی چاہئے ورنہ کوئی پتہ نہیں کہ کب کورونا کی زیادہ خطرناک شکل نمودار ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کورونا وباءکے وار اس قدر مہلک اور خطرناک ثابت نہیں ہوئے جس قدر پڑوسی ممالک اور یورپ میں ثابت ہوئے تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سامنا ہوا تو صحت کے ڈھانچے میں کمزوری کھل کر سامنے آسکتی ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ احتیاط کی جائے اور کورونا وباءجس کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا کا مقابلہ کرنے کے لئے یہی ایک ذریعہ ہے سکول ، کالجز اوریونیورسٹیاں کھلنے کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں پر قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی نہیں کی جاتی اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر وباءکے کیسز میں اضافہ ہونے لگا ہے اور ساتھ ہی ہلاکتیں بھی ہونے لگی ہیں ایسا نہ ہو کہ کورونا وباءپر قابو پانے کے آخری مرحلے میں تمام منصوبہ بندی اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا جائے جس سے حاصل شدہ کامیابی ناکامی میں بدل سکتی ہے اور جن معاشی نقصانات کا بہت مشکل سے ازالہ کیا گیا ہے ان کا ایک بار پھر سامنا ہو سکتا ہے ۔