فلوریڈا کے شہر آرلینڈو میں فرصت کے وہی دن تھے جنہیں غالب ڈھونڈتے رہے...بے شک اب تصور جاناں کی اتنی خواہش نہ تھی لیکن فرصت کے رات دن میسر تھے میں اپنے اکلوتے نواسے نوفل کی دوسری سالگرہ میں شرکت کیلئے آیا تھا... سالگرہ کی تقریب کے بعد میں بالکل فارغ تھا اور اسکے بعد جو فرصت کے رات دن تھے ان میں تصور جاناںکا امکان قدرے کم کم تھا کہ میری بیگم پہلے سے وہاں موجود تھی وہ فلوریڈا کے لئے روانہ ہوئی تو اس کی سہلیوں نے اس پر بہت رشک کیا کہ ہم تو لاہور کی گرمیوں میں جھلستی رہیں گی اور میمونہ فلوریڈا کی خوشگوار فضائیوں میں ٹھاٹھ سے یہ دن گزارے گی اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ میمونہ وہاں ایک بے بی سٹر کے طورپر جارہی ہیں ورنہ اس کا کوئی موڈ نہ تھا اپنے گھر سے نکلنے کا‘ عینی تجربے کےلئے ایک ڈاکٹر کے کلینک میں کام کررہی تھی اور اسکے بچے کو سنبھالنے کا کوئی بندوبست نہ تھا چنانچہ اس نے ماں سے ذرالاڈپیار کرکے اسے امریکہ امپورٹ کرلیا... ہر صبح منہ اندھیرے میں جاگر پہن کر عینی کے گھر کے پچھوڑاے میں واقع گالف کورس کے کناروں پر سیر کرنے کیلئے نکل جاتا وہاں متعدد جھیلیں تھیں اور کناروں پر ایک نہایت گھنا جنگل تھا جنگل کے پہلو میں چلتے ہوئے مجھے خوف بھی محسوس ہوتا کہ اس میں کچھ جانور بھی پائے جاتے تھے ایک روز جنگل کے اندر سے ایک عجیب سی ڈکراتی ہوئی گونجدار آواز آئی اور میرا خون خشک ہوگیا کہ میں نے آج تک ایسی آواز نہیں سنی تھی پتہ نہیں وہ کیا شے تھی جو بولی تھی لیکن تقریباً ہر روز مجھے ہرن دکھائی دیتے ایک سویر میں اپنے آپ میں مگن چلاجارہا تھا کہ برابر کے جنگل میں سرسراہٹ سی ہوئی اور پھر یکدم تین خوبصورت ہرن چوکڑیاں بھرتے ہوئے یوں نمودار ہوئے کہ ان میں سے ایک تقریباً مجھ سے ٹکراگیا میں مبہوط کھڑا ان شاندار جانوروں کو دیکھتا رہا اور وہ بھی کچھ دیر ساکت کھڑے میرا معائنہ کرتے رہے اور پھر قلانچیں بھرتے ہوئے پھر سے جنگل میں روپوش ہوگئے خرگوش اکثر میرے پاﺅں تلے آتے آتے بچتے کبھی سفید سروالے عقاب کی چیختی ہوئی آواز پورے جنگل پر چلاتی ہوئی تیر جاتی سیر کے دوران مجھے کچھ امریکی مائیاں بھی ملتیں اور میں ان کی بجائے ان کے کتوں کو ہیلو ہاﺅ کیوٹ کہتا ... کسی بھی امریکی کا دل جیتنے کیلئے اسکے کتے کو مسکرا کر دیکھنے سے آپ سرخرو ہو جاتے ہیں گالف کورس کے آخر میں پھولوں کی ایک چھوٹی سی خوشنما اور ترتیب شدہ کیاری تھی یہ کیاری پچھلے برس یہاں نہ تھی. کیاری کے درمیان میں ایک شفاف پتھر پر ایک مسکراتی ہوئی نوجوان لڑکی کی تصور ثبت تھی اور نیچے اس کا نام درج تھا وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر اکیس برس کی عمر میں ہی مرگئی تھی اور اسکے دوستوں یاعزیزوں نے یہاں اسکی یادگار بنادی تھی... ظاہر ہے میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن میں ہر سویر اس کیاری کے قریب پہنچ کر رک جاتا پتھر پر نقش اسکا مسکراتا ہوا چہرہ اوس میں بھیگا ہوا ہوتا اور یہ وہی لمحہ ہوتا جب گالف کورس کے سبزہ زار سے آگے گھنے درختوں کے ایک نیم سیاہ ذخیرے میں سے سورج کی پہلی کرنیں تیرتی ہوئی آتیں اور اوس سے بھیگتی ہوئی اس جواں مرگ لڑکی کی تصویر کو روشن کرنے لگتیں میں اس کیلئے بے حد رنجیدہ محسوس کرتا جیسے وہ میری عزیزہ ہو‘ کوئی دوست ہو‘ یہاں تک کہ میں اسکے حق میں دل ہی دل میں دعا بھی کرتا کہ اتنی نوجوانی میں یوں دنیا سے گم ہو جانا کتنا بڑا سانحہ ہے وہ کیاری اور اس خوبصورت لڑکی کی پتھر پر کندہ تصویر آج بھی میرے دل پر نقش ہے اور میں اس کیلئے سوگوار ہوتا ہوں‘ سیر سے واپس آکر میں اپنا پسندیدہ مشروب چکوترے کا رس پیتا اور پھر میرے دن کا آغاز ہوجاتا نوفل میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا نانا آجاﺅ اور اپنے کھلونوں سے اٹے ہوئے کمرے میں لے جاتا مجھے ایک کرسی پر بٹھا کر وہ کھیلنے لگتا تھوڑی دیر بعد میں بھی کھلونوں کی جانب راغب ہوجاتا کہ امریکی یا یوں کہہ لیجئے امریکہ میں فروخت ہونے والے چینی کھلونے اتنے دلچسپ اور انوکھے ہوتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگتے ہیں کچھ دیر بعد صورتحال کچھ یوں ہوتی کہ میں تو کھلونوں سے کھیل رہا ہوں اور نوفل میرا ہاتھ پکڑ کر درخواست کر رہا کہ نانا آجاﺅ لیکن نانا جان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ کھلونوں سے کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں میرے داماد بلال کے پاس اگرچہ سول انجینئرنگ کی ماسٹرز ہے لیکن وہ اتنا محنتی ہے اور اسے پڑھنے کا اتنا جنون ہے کہ سٹی انجینئر کی جاب کے علاوہ وہ گزشتہ دو برس سے قانون کی ڈگری کیلئے بھی کلاسیں لے رہا ہے اس برس وہ باقاعدہ قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلے گا پڑھنے کے علاوہ اسے اپنی باربی کیو گرل پر گوشت بھوننے کا شوق ہے ... ایک روزوہ مجھے امریکہ کے سب سے پرانے گاﺅں سینٹ آگسٹائن لے گیا یہ قصبہ حیرت انگیز حد تک خوبصورت تھا سمندر کے کنارے یہ اس علاقے میں امریکہ کی اولین بستیوں میں سے تھی جہاں ہسپانوی ثقافت نمایاں ہے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اندلس میں گھوم رہا ہوں اور اس احساس کو تقویت ایک ایسی عمارت نے دی جس کا طرز تعمیر عربوں کا تھا معلوم ہوا کہ یہ حویلی غرناطہ کے قصرالحمرا کی نقل میں ایک امریکی نے بنوائی تھی یہاں تک کہ اس کے ماتھے پر الحمرا کی دیواروں پر کندہ تھا” ولاغالب الاللہ“ بھی درج تھا ...