آٹھ ماہ تک کورونا نے نظام زندگی کو اپنے زیر اثر رکھا ۔سکول کالج ، دیگر تقاریب معطل ہو کر رہ گئیں۔ ایک دفعہ پھر تعلیمی سرگرمیاں شروع کی گئیں کہ اس سے چھٹکارہ مل گیا ہے ، خوشی تھی کہ چلو ایک بڑے وقفے کے بعد سرگرمیاں شروع ہو گئیں مگر اب پھر سے کورونا کے کیسز میں اضافہ ہونے لگا ہے ¾ ادھر گزشتہ روز وزیر تعلیم شفقت محمود نے تعلیمی ادارے بند ہونے سے متعلق خبروں کو غلط اور جعلی قرار دے دیا اور کہاکہ سکولوں میں ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا جا رہا ہے ¾ طلباءکو سکولوں میں تمام ممکنہ سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے ¾ اس لئے ان افواہوں پر یقین نہ کیا جائے ¾خیال رہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس سے بند کئے گئے سکول 6 ماہ بعد مرحلہ وار کھول دیئے گئے ہیں لیکن ٹیسٹوں کے بعد کورونا کے کیسز مسلسل سامنے آ رہے ہیں ¾آزاد کشمیر سے اطلاعات آئی تھیں کہ کچھ کورونا کے کیسزسامنے آئے ہیں اوروہاں پرلاک ڈاو¿ن کی بات بھی کی جا رہی ہے اور مریضوں کے لئے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں ۔ ادھر لاہور میں بھی کچھ کیسز سامنے آ رہے ہیں اگر اس مرض کوآزاد چھوڑا گیا تو لگتا ہے کہ پھر سے یہ وبا پھیلے گی اس لئے کہ ا س کے ایک سے دوسرے کی طرف بڑھنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں بھی اس بیماری کے بہت سے مریضسامنے آ گئے ہیں ¾ اگر عوام کی طرف سے اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کیا جائے ¾ سماجی فاصلے اورایس او پیز کا بھی خیال رکھا جائے تو اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے ¾اگر عوام نے احتیاط نہ کیا اور مریضوں کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو لگتا ہے کہ اس مرض نے پھر سے وار تیز کرنے ہیں۔اس کو توآزاد چھوڑدیا گیاتھا اس لئے کہ رپورٹ یہی تھیں کہ اس وبا نے اپنا سامان لپیٹ لیا ہے اور پاکستان اس مہلک مرض سے نجات پا چکا ہے اس لئے شہریوں نے بھی احتیاط کا دامن چھوڑ دیا تھا اور کھلے عام بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے کہ ایک دفعہ پھر سے کورونا کے مریض سامنے آنے لگے ‘ اس کے پھیلنے کی رفتار جیومیٹرک رفتار سے ہوتی ہے۔ ایک سے دو ،دو سے چار اور چار سے آٹھ کی صورت سے اس کا پھیلاﺅ ہوتا ہے اس لئے اس سے پرہیز بہت ہی ضروری ہوتا ہے مگر چونکہ اس کے حملوں میں اچانک ہی بہت کمی ہو گئی تھی اسی لئے اس کے لاک ڈاو¿ن وغیرہ سے ہاتھ اٹھالیا گیا تھا مگر ایک دفعہ پھر کراچی او رلاہور میں اس کے کیسز سامنے آ رہے ہےں اور یہ تو ان دو شہروں کی بات ہے ہوسکتا ہے کہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کیسز ہوں جن کا ابھی کسی کو معلوم بھی نہ ہو اس لئے اس کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ اگر ایسا ہے تو اس کے تدارک کا سامان کیا جائے اور جس طرح سے اب گلیوں بازاروں میں لوگ آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ کورونا کے بہت سے ایسے مریض ہوتے ہیںکہ جن میں یہ مرض ظاہر نہیں ہوتا مگر یہ لوگ اس مرض کے کیریئر ہوتے ہیں اور ان سے یہ مرض آگے پھیل سکتا ہے اگر اسکا بر وقت تدارک نہ کیا گیا تو پھر سے اس موذی مرض کے پھیلنے کا خد شہ ہے ‘اسلئے عوام کواس سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جس بھی شخص میں ایسے آثار پائے جائیں اُسکوخود کوہی دوسروں سے الگ کر لینا چاہئے اور حکومت کو بھی چاہئے کہ کیسز پر نظر رکھے اور ان لوگوں کو عوام سے الگ کرنے کے اقداما ت اٹھا ئے۔ اس سلسلے میںاحتیاط وقت کی اہم ضرورت ہے ‘ اور اس مرض کو پھیلنے سے روکا جائے جس طرح سے ہماری حکومت او رعوام اس مرض کی صورت حال سے آگاہ ہیںانہیںخود سے ہی احتیاط کرنی چاہئے اور اس مرض کو پھیلنے سے روکنا چاہئے ۔ یہ سب عوام اور حکومت کے تعاون ہی سے ممکن ہے اس لئے ضروری یہ ہے کہ اس پرنظر رکھی جائے اوراس کو قابو کر لینا چاہئے اس کا علم پہلے سے عوام کو بھی اور حکومت کو بھی ہے اس لئے اس کو قابو کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی البتہ اس میں عوام کا تعاون بہت لازمی ہے کیوں کہ حکومت تو گھرگھر جا کر نہیں ڈھونڈ سکتی کہ کہاں کوئی کورونا کا مریض پایا جاتا ہے یہ تو مریضوں نے خود ہی کرنا ہے کہ ہسپتال سے فوری رجوع کیاجائے اور اس موذی مرض کی روک تھام کا بندوبست کر لیا جائے ۔اگر عوام نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو کورونا وبا کے پھیلاﺅ کو روکا جا سکتا ہے ۔