اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ حکومت دو سال میں تھوڑا بہت بھی ڈیلیور کر پاتی تو اپوزیشن کو عوام میں جانے کی ہمت نہ ہوتی مگر یہ حکومت ہی ہے کہ اس نے پے در پے ناکامیوں اور بدانتظامی سے نہ صرف عوام کو مایوس کر دیا، بلکہ مایوس اپوزیشن کو بھی واپسی کی امید دلادی‘ احتساب ایک ضرورت ہے اور بے لاگ احتسابی عمل سے قومی خسارے میں کمی ہو سکتی ہے، مگر جس طرح اس احتساب کے نتائج آنے مں غیر ضروری تاخیر ہوتی جا رہی ہے اور لوٹے ہوئے خزانے کو واپس لانا خواب ہی رہتا ہے ،عوام کا احتساب کے عمل سے اعتماد اٹھتا جائیگا اور وہ حکومت کے وعدوں کو غیر سنجیدہ لینے لگیں گے۔ ایوان صدر‘وزیراعظم ہاو¿س اور وفاقی ٹرانسپورٹ پول میں اچھی اور بلٹ پروف گاڑیاں ریاست کی ملکیت ہوتی ہیں، جو اعلی ریاستی عہدے داروں اور غیرملکی مہمانوں کے استعمال میں آتی ہیں‘ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کو ایسے دکھانا شروع کیا ،جیسے یہ سب کچھ غیر ضروری تھا ہو سکتا ہے کہ ان مہنگی سرکاری گاڑیوں کے استعمال میں بے احتیاطی یا خیانت بھی ہوتی رہی ہو، مگر درجنوں گاڑیاں نیلام کرنے اور وزیر اعظم ہاو¿س کو یونیورسٹی بنانے کے اعلانات اور فیصلے خوش کن تو ہو سکتے ہیں، قابل عمل نہیں تھے‘ شروع میں وزیراعظم نے اپنی رہائش تبدیل کر لی تھی لیکن وزیراعظم ہاو¿س بھی زیر استعمال رہا‘ بہت ہی بلٹ پروف گاڑیوں اور بھینسیں بھی نیلام کر دی گئیں۔ اس کے بعد جب بھی غیرملکی معزز مہمان آئے ان کی نقل و حمل کے لئے بھاری کرائے پر ایسی گاڑیاں لی گئیں، اور ایک سال میں جتنے پیسے گاڑیاں نیلام کرکے حاصل ہوئے تھے، وہ کرائے میں خرچ ہوگئے اور بالآخر حکومت کو احساس ہوا کہ وفاقی ٹرانسپورٹ پول میں اچھی گاڑیاں ریاست کی ضرورت ہوتی ہیں اور اب گزشتہ ہفتے 33 نئی بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی گئی ہے. جہاں تک وزیر اعظم ہاو¿س کو یونیورسٹی بنانے کا سوال ہے تو وہ تعلیم اور سکیورٹی کے اداروں نے ناقابل عمل قرار دے دیا ہے‘ ریڈ زون کے انتہائی حساس علاقے میں تعلیمی ادارہ نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی ایک اعلی رہائشی عمارت اس مقصد کے لیے کار آمد ہو سکتی ہے‘ بہرحال یہ کوئی ایک مثال نہیں ہے. جہاں تک اپوزیشن میں شامل بڑی جماعتوں کی قیادت پر کرپشن مقدمات کا تعلق ہے تو ان میں موجودہ حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا‘ آصف زرداری اور ان کے قریبی دوستوں اور نواز شریف فیملی پر مقدمات مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں قائم ہوئے تھے، اگر موجودہ حکومت ان پر کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرتی تو یہ منطقی طریقے سے آگے بڑھتے رہتے لیکن جب وزیراعظم اور وزراءنے اس احتسابی عمل کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرنا شروع کیا اور عدالتوں سے باہر میڈیا میں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی کہانیاں سنانا شروع کیں تو اپوزیشن کو احتساب کے عمل کو انتقام ثابت کرنے میں آسانی ہوگئی‘ حکومت ان الزامات کو ثابت کرنے میں عدالتی معیار کی شہادتیں تو فراہم نہیں کر سکی، احتساب کا عمل بھی اس لحاظ سے ضروری ہے کہ اس سے قومی خزانے کوپہنچنے والے نقصانات کا اندازہ آزالہ از حد لازمی ہے تاہم اس پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اگر باقی حکومتی امور سے توجہ ہٹتی ہے تو یہ بھی مناسب نہیں‘ جس سے چوربازاری، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی میں بے انتہا اضافہ ہوتا گیا. اب عالم یہ ہے کہ آٹا بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے‘ ملک کی گندم اچانک غائب ہوگئی اور اب تک تیس لاکھ ٹن گندم درآمد بھی کی جاچکی ہے‘ لیکن قیمتیں کنٹرول نہیں ہورہیں، چینی بھی دگنی قیمت پر پہنچ گئی‘ دونوں ضروری اشیا کی فراہمی کےلئے حکومتی اعلانات میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ کئی کمیشن بھی بن چکے اور انکوائریاں ہوچکیں‘ ابھی تک کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا. اب تو یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی اشیائے ضرورت کی قیمتیں مارکیٹ سے بڑھ گئی ہیں‘ عام آدمی کا کیا حال ہے، اس کی کسی کو پرواہ نہیں‘ حکومتی ملازمین بھی احتجاج پر مجبور ہیں‘ ان حالات میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپوزیشن کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرے گی، مگر عوام کو ریلیف دینے کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں لا سکی‘ ابھی تک بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی خوشخبریاں ہی مل رہی ہیں اور پھر آئی ایم ایف یا ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے‘ عوام کو درپیش مسائل کے باعث آزمودہ سابق حکمران دوبارہ نجات دہندہ بند کر آنے کی کوششوں میں ہیں‘ عوام کو نہ آگے کوئی امید نظر آتی ہے اور نہ ہی پیچھے کوئی حوصلہ دینے والا ہے‘ دوطرفہ گرداب میں پھر عوام ہی ہیں۔