حز بِ اختلاف کی ساری سیاسی جماعتوں نے ایک دفعہ پھر سے اپنے زندہ ہونے کا پروگرام بنا لیا ہے ۔ بہت اچھی بات ہے جمہوریت میں یہی تو ایک بات ہوتی ہے کہ عوام میں زندگی کا احساس جاگارہتا ہے۔ جب تک سیاسی پارٹیاں ہل جُل نہ کریں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہیں حکومت نام کی بھی کوئی چیز اس ملک میں ہے یا نہیں۔ اس لئے کہ روزانہ کا ایک ہی معمول ہو کہ کھاو¿ پیو دن ایسے تیسے گزارو اور رات کو سو جاو¿ یہ بھی بھلاکوئی زندگی ہوئی ۔ ایسی زندگی تو ہم کئی دفعہ آمریت کے دورحکومت میںدیکھ چکے ہیں۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے اور عوام کو کیاکرنا چاہئے۔ عوام کا کام بس کھانا پینا اور سونا ہی رہ جاتا ہے۔ بالکل ایک ہی طرح کی زندگی سے لوگ تنگ ا ٓجاتے ہیں او رپھر سے جمہوریت کا حسن ڈھونڈ نے لگتے ہیں ۔ دو چار دن تو پکرڑدھکڑہوتی ہے اور پھر آمر گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور نئے سرے سے فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد کے نعرے فضا میں گونجنے لگتے ہیں اور زندگی جا گ اٹھتی ہے۔ہر طرف چہل پہل شروع ہو جاتی ہے جگہ جگہ ٹینٹ لگ جاتے ہیں۔ آپ کا دیرنہ خدمت گار ۔ مجھ کو ہی ووٹ دو۔ اور اچانک سے سیاسی پارٹیوں کا جنگل اگ آتا ہے اورپورا ملک جمہوری پارٹیوں کی زد میں آ جاتا ہے ۔ ایسی بھی پارٹیاں میدان میں اتر آتی ہیں کہ جن کے ممبران کی کل تعداد اُن کی ذات اور ایک آدھ ووٹر ہوتا ہے مگر وہ بڑے دھڑلے سے میدا ن میں کو د رہے ہوتے ہیں۔ بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے پروگراموں کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں او ر عوام کو سنہرے خواب دکھانے میں مصروف ہو جاتی ہےں ۔ ان کے دلفریب نعرے اُن کے اصل چہروں کو چھپا لیتے ہیںاور عوام ان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ جو پارٹی زیادہ سے زیادہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن جانتی ہے وہی کامیاب ہوتی ہے اور جب اقتدار کی کرسی مل جاتی ہے تو پھر عوام دوبارہ نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ گاو¿ں گاو¿ں شہر شہر جو دستر خوان بچھے ہوتے ہیںانتخابات کے دوسرے ہی دن کہیں ایسے غائب ہوتے ہیں کہ پھر اگلے پانچ سال تک اُن کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ چاہے جیتیں یا ہاریں سیاسی لوگ صرف اُن ہی دنوں عام عوام کے در میان ہوتے ہیںکہ جب تک اُن کو ووٹ نہیں مل جا تے اور جب ووٹ مل جاتے ہیں او رکرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو ان کو جادوئی ٹوپیاں مل جاتی ہیںاور پھر وہ اپنے ووٹروں کو کبھی دکھائی نہیں دیتے۔ وہی لیڈر جو کل تک اپنے ووٹوں کےلئے ایک عام آدمی کے گھر بھی منتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ اپنے سب سے بڑے سپورٹر کو بھی منہ لگاتے نظر نہیں آتے۔ اور بے چارے سپورٹر اپنا منہ پیٹ کر رہ جاتے ہیں اور آپس میں قسمیں اٹھاتے ہیں کہ آئندہ وہ بھی اپنے لیڈروں سے ایسا ہی سلوک کریں گے مگر پھر سے جب انتخابات کی بہار آتی ہے تو یہی عوام پھرسے اُن ہی لیڈروں زندہ بادکے نعرے لگانے میدان میں اتر آتے ہیں کہ جن سے وہ پانچ سال تک ملنے سے بھی قاصر رہے ہیںاو ر جن کو ملنے کےلئے اُن کو گھنٹوں انتظار کے بعد بھی مایوس لوٹنا پڑا ہوتاہے۔ مگر جونہی انتخابات کا بگل بجتا ہے ووٹر بے چارے سارے گلے شکوے بھول چکے ہوتے ہیں۔ ہم نے آج تک تو یہی دیکھا ہے۔ کہ جیسے ہی انتخابات میں کسی امید وار کے گھر دیگیں چڑھائی جاتی ہیں تو ووٹر پچھلا سب کچھ بھول کر پھر سے فلاں زندہ باد کے نعرے مار رہا ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اور ایسا حسن ہمیں ہر پانچ سال کے بعد اور کبھی دس سال کے بعد اور کبھی دو سال کے بعد ہمیں نظر آجاتا ہے اس لئے کہ جب جمہوریت آمریت کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر یہ ووٹوں والا میلا کبھی دس سال کے بعد بھی لگتا دیکھا گیا ہے۔ ہمارے ہاں تو جمہوریت کے ساتھ کچھ ایسا ہی دیکھا گیا ہے‘ شاید جمہوریت کچھ زیادہ دن کےلئے نظرآجائے تا ہم ہم تو ہمیشہ دعا گو رہے ہیںکہ جمہوریت اس ملک میں پھلے پھولے مگر کیا کریں جب جمہوریت اپنا حسن دکھانے لگتی ہے تو پھر کچھ گڑ بڑ ہو جاتی ہے ۔