سی ڈی اے کا قانون طاقتور کے آگے خاموش ہوجاتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد۔اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی درخواست گزار کے وکیل بابر ستار عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ نیول فارمز کی طرف سے قمر افضل ایڈووکیٹ نے کیس کی پیروی کی۔

 دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب عدالت ایک یونیفارم والے بندے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے؟یونیفارم والے بندے کو سزا سنا دوں تو اچھا نہیں ہو گا ایف آئی آر درج ہو جائے تو انسپکٹر یا سب انسپکٹر جا کر نیول چیف سے تفتیش کریگا جس پر وکیل نیول فارمز کا کہنا تھا کہ یہ حساس معاملہ ہے عدالتی کارروائی سے غلط اثر پڑے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حساس معاملہ ہے تو کیا اس عدالت کو بند کر دیں۔

 اگر یہ معاملہ حساس بنا ہے تو عدالت کی وجہ سے نہیں بنا آپ کیا چاہتے ہیں نیول چیف کو اس کاروبار کے لئے استثنیٰ دے دیا جائے؟ سب سے زیادہ حساس معاملہ قانون توڑنا ہے،سی ڈی اے کا قانون کمزور کے لیے ہے طاقتوروں کے آگے سی ڈی اے کے قانون خاموش ہو جاتے ہیں۔

بابر ستار جب دلائل دے رہے تھے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیول چیف کو کس چیز کا پیٹرن ان چیف بنایا گیا ہے جس پر بابر ستار نے عدالت کو بتایا کہ نیول چیف کو واٹر سپورٹس کا پیٹرن ان چیف بنایا گیا ہے اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ واٹر سپورٹس کی کوئی باڈی ہو گی کوئی ہوا میں تو پیٹرن ان چیف تو نہیں بنا دیا گیا ہو گا جس پر بابر ستار نے عدالت کو بتایا کہ بدقسمتی سے کوئی ایسی باڈی نہیں ہے نیول چیف کو بس واٹر سپورٹس کا پیٹرن ان چیف بنایا گیاواٹر سپورٹس کا پٹرن ان چیف بننا نیول چیف کو کوئی اختیار نہیں دیتا۔

نیول چیف کو واٹر سپورٹس کا پیٹرن ان چیف بنانے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں 1992 کا خط ہے جس میں وزیراعظم نے چیف آف نیول سٹاف کو 20 ملین کی رقم جاری کی تھی اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ کس کی حکومت تھی جب یہ سب ہوا جس پر وکیل صفائی نے جواب دیا کہ 1992 میں چونکہ یہ خط جاری کیا گیا تو یہ مسلم لیگ ن کا دور ہوا ہو گافنڈز 1993 میں جاری کیے گئے اور تب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی جھیل کنارے کسی قسم کی تعمیرات خلاف قانون ہیں۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیول فارمز تو تعمیر ہو چکے اب انکا اختیار پھر کون سنبھالے گا؟ جس پر وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نیوی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں چلا سکتی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب کر رہے ہیں آئی بی اور ایف آئی اے بھی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کام کر رہے ہیں میرا خیال ہے اس ہائیکورٹ کو بھی اپنی سوسائٹی بنا لینی چاہیے اس شہر میں ہر ادارہ ریئل سٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہو چکا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ نیول سیلنگ کلب پر کتنا خرچہ آیا؟جس پر وکیل قمر افضل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ نیوی ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت بنایا گیا اور اخراجات سے متعلق معلوم کرنا پڑیگا جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قمر افضل صاحب آپ جو حوالہ دے رہے ہیں وہ آپکے خلاف جا رہا ہے عدالت نے پاکستان نیول فارمز کے وکیل قمر افضل کو تیاری کیلئے وقت دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو قانون کے حوالوں سے مطمئن کریں کہ کیسے پاکستان نیوی ہاؤسنگ سوسائٹی بنا سکتی ہے عدالت نے کیس کی سماعت 17 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔