مہنگائی اور سرکاری ملازمین

اس سال پہلی دفعہ یہ دیکھا گیاکہ سرکاری ملازمین اور پنشنر ز کی تنخواہوں اور پنشن میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ سرکاری ملازمین ہوںیا پنشنر ہوں اُن کا گزارہ تنخواہ اور پنشن پر ہی ہوتا ہے ۔اب سارے سرکاری ملازمین کے لئے کوئی دوسرا راستہ تو ہوتا نہیں کہ اگر مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے تو اُن کا گزارہ کیسے ہو ۔ اس کے لئے ابھی تک کی حکومتوں نے تو یہی کیا ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے کچھ نہ کچھ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کر دیا جاتا رہا ہے تا کہ ملازمین اور پنشنرز کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ مگر اس حکومت نے شاید بچت کا یہی طریقہ سوچا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا جائے اور بعض نے تو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جائے۔انصاف یہ ہوا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا مگر مہنگائی کا جن ہے کہ قابو میں ہی نہیں آ رہااور یوں لگتا ہے کہ جس تنخواہ میں ملازمین کام کر رہے ہیں اُس سے تو اب دو ہفتے کا راشن بھی نہیں آ سکتا اب باقی کے دو ہفتے یا تو روزہ رکھنے کی کوشش کریں یا پھر ہاتھ ماریں ۔ اب بہت سے ملازمین ہاتھ بھی نہیںمارتے اور اس کا مطلب تو یہی ہے کہ وہ اب سارا سال روزے ہی رکھیں۔ اس لئے کہ اب آٹا ، چینی اور دیگر اشیائے خور د و نوش کسی طرح قابو میں ہی نہیں آ رہے ہیں ‘تنخواہ دا ر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دیگر ذرائع استعمال کرےں ۔ مگر یہ بھی ہر ملازم کے بس کی بات تو نہیں ہے ۔ بہت کم ملازمین ہیں جو اوپر کی روزی پیدا کر سکتے ہیں ورنہ دیگر تو اسی تنخواہ میں گزارہ کر رہے ہیں مگر جہاں آٹا روزبروز ملازمین کی پہنچ سے دور ہورہا ہو اور چینی سنچری سے بھی بڑ ھ چکی ہو تو ملازمین کس طرح گزارہ کریں گے اب ہر ملازم ایسا بھی نہیں ہے کہ اوپر کی آمدنی کا سوچ سکے اور مزدور تو اپنی دیہاڑی پر ہی رہے گا اُس کی آمدنی میں کیسے اضافہ ہو کہ وہ ایک سو دس روپے پرکلو چینی خرید رہا ہے ‘ سبزی ،آلو، کچالو وغیرہ بھی سو روپے کلو سے کم نہیں مل رہے تو گزارہ کیسے ہو۔ اب ایک صورت توایسے ملازمین کی ہے کہ جن کا تعلق عام آدمی کے کاموں سے ہے وہ تو چلو اپنے لئے کچھ نہ کچھ دوسروں کی جیبوں سے نکال سکتے بھی ہیں مگر وہ ملازمین کہ جن کا گزارہ صرف اور صرف تنخواہ پر ہی ہے وہ کیا کریں۔ اُن کے لئے تو اُن کی تنخواہ ، چاہے وہ سولہ سترہ گریڈ کے ملازمین ہی کیوں نہ ہوں ، بمشکل دس دن کی روزی روٹی کے لئے کافی ہو رہی ہے اور اس کے بعد وہ کیا کریں اسلئے کہ پیٹ تو پورا مہینہ کھانے کو مانگتا ہے ‘آٹا ابھی تو اسی نوے روپے کلو تک پہنچ چکا ہے تو ایک تنخواہ دار کہ جس کی تنخواہ میں اس سال ایک پیسہ بھی اضافہ نہیں ہوا وہ بے چارہ کس طرح اپنے بچوں کا پیٹ پالے گااگر چوری کرتا ہے تو پکڑے جانے پر اُس کے بچوں کاکیا ہو گا۔ دیکھا گیا ہے ملک میں چوریوں کی شرح میںبہت اضافہ ہو گیا ہے اسلئے کہ جب آپ کا بھوکا بچہ روٹی کےلئے بلبلائے گا اور آپ کے پاس اُس کا پیٹ بھرنے کےلئے کچھ نہیں ہو گا تو اُسے کہیں سے کچھ ملنے کی امید بھی نہیں ہو گی و ہ کیاکرے گا؟بس اسی وجہ سے ملک میں چوریوںکا زور زیادہ ہو گیا ہے۔ اگر ایک شخص کے گھر میں پورے مہینے کا راشن ہو گا تو اُسے رسک لینے کی کیا ضرورت ہے ‘رسک تو وہی لیتا ہے جس کے بھوکے بچے روٹی مانگ رہے ہوں اور اُس کی اُن کے منہ میں ایک نوالہ ڈالنے کی بھی سکت نہ ہو تو وہ کیا کرے گا‘ظاہر ہے کہ دوسرے کے منہ کا نوالہ چھینے گا اور اس کے لئے ریلیف ہمیشہ حکومتیں دیا کرتی ہیں‘کب اس حکومت کو فرصت ملے اور ہ ان غریبوںکا بھی سوچے کہ جو اپنی آمدنی سے بچوں کی دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کر پا رہے۔یہ تو ایک معلوم بات ہے کہ جب پیٹ روٹی مانگتا ہے تو پھر انسان ہر جگہ سے لینے کی کوشش کرتاہے‘ اشیائے صرف خصوصا ً آٹے اور چینی کی قیمتوں میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے جو ایک غریب کیا ایک متوسط گھرانا بھی اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ یہی حکومت کے سوچنے کی بات ہے۔