قدیم درسگاہ کا ناگفتہ بہ دور

جامعہ پشاور اپنے اخراجات کے نصف سے قدرے کم فنڈز اپنے ذرائع آمدن سے اکٹھا کر رہی ہے یہ سلسلہ عشروں سے جاری تھا مگر کورونا وباءنے پانچ مہینے کے دوران سب کچھ ٹھپ کرکے رکھ دیا اورپھر یہی ہونا تھا کہ جامعہ کروڑوں روپے کی مقروض ہوگئی قرضہ لینا مجبوری تھی کیونکہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور حاضر سروس کو تنخواہوں کی ادائیگی یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داری اور ملازمین کا بنیادی حق تھا جبکہ اس کیلئے ملازمین بھی ہڑتال اور دھرنے پر تھے اگرچہ اب کچھ عرصہ سے جامعہ کے ذرائع آمدن جزو ی طورپر بحال ہوچکے ہیں تاہم یہ امر قابل غور بلکہ باعث تشویش ہے کہ داخلہ کے پیسوں سے یونیورسٹی کب تک اور کس حد تک چل سکتی ہے؟ مزید برآں کروڑوں روپے کے قرضہ کی واپسی کیسے اور کہاں سے ممکن ہوگی؟ کیونکہ گرانٹ تو بدستور20سے25 فیصد کم آرہی ہے اور اپنے وسائل سے استفادہ کی حالت یہ ہے کہ تاحال ہاسٹل بند اور مروجہ طریقہ پر کلاسز کا مکمل اجراءبھی نہیں ہوا ہے یعنی یونیورسٹی جزوی طورپر اب بھی بند ہے ایسے میں جلتی پر تیل کے مصداق یونیورسٹی کے سینکڑوں درجہ چہارم کنٹریکٹ ملازمین کو بھی فارغ کردیاگیا مطلب یہ کہ جب عارضی ملازمین کے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے پر اس کی تجدید یعنی ری نیول نہ ہو جائے تو اسے فارغ سمجھنا چاہئے ملازمین بیچارے گزشتہ تین مہینے سے بغیر تنخواہ کے یونیورسٹی آتے ہیں جبکہ گزشتہ چار ہفتے سے دھرنے‘ ریلی اور روڈ بلاک کرنے جیسے احتجاج میں لگے ہوئے ہیں بیچاروں نے اخراجات کیلئے چندہ اکٹھا کرکے عدالت میں کیس بھی دائر کردیا ہے جس کا فیصلہ ابھی نہیں آیامگر وہ فیصلے کا انتظار کئے بغیر بدستور احتجاج کررہے ہیں روزانہ صبح سے دوپہر تک یونیورسٹی کے مین دفاتر کے سبزہ زار میں دھرنا دیتے ہیں جبکہ بعدازاں منتشر ہونے سے قبل ریلی نکال کر اور نعرے لگا لگا کر دل کی بھڑاس بھی نکالتے ہیں اور سڑک بھی کچھ دیر کیلئے بلاک کر دیتے ہیں احتجاج جاری ہے اوران بیچاروں کے مستقبل جبکہ عدالتی فیصلے کے بارے میں فی الوقت کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی البتہ اس ناگفتہ بہہ حالت میں ایک نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ مستقل کلاس فور اور کلاس تھری بھی انکے ساتھ ایکا کرتے ہوئے شانہ بشانہ ہوگئے ہیں کنٹریکٹ کلاس فور اور یونیورسٹی انتظامیہ دونوں کا کہنا ہے کہ ان سے ناانصافی ہو رہی ہے ملازمین کا شکوہ اور احتجاج ہے کہ انہوں نے گزشتہ پانچ آٹھ اور دس سال سے کام کیاہے اور اب انہیں اور انکے بچوں کو فاقوں کے حوالے کیا جارہا ہے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا رونا ہے کہ حکومت نے گرانٹ کو اس حد تک کم کردیا ہے کہ اب یونیورسٹی کا چلنا محال ہوگیا ہے اور وہ تو اس فکر و اندیشے سے نالاں ہیں کہ کروڑوں روپے کا جو قرضہ لیاہے اسکی ادائیگی کیسے کرے گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے مستقبل کی مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر یہ کمزور ہیں اور مالی وسائل کے محتاج ہیں تو لازمی طور پر اس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہونگے اس لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنی جامعات کو اولین ترجیح کے طور پر حکومتی بجٹ میں سرفہرست رہیں تاکہ ان کو درپیش مشکلات ختم ہوں۔الغرض جامعات بالخصوص قدیم درسگاہ پشاوریونیورسٹی اس وقت اپنی تاریخ کے جس بدترین دور سے گزر رہی ہے اس کیلئے ملازمین کو موردالزام ٹھہرایا جا سکتا اور نہ ہی یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف انگلی اٹھائی جاسکتی ہے بلکہ مسئلے یا ابتری کی بنیاد‘ علت او وجوہ حکومت ہے جس نے موجودہ وقت کی ضروریات کے مطابق تعلیمی بجٹ اورجامعات کی گرانٹ میں20فیصد یا کم از کم 10فیصد اضافے کی بجائے اس میں کٹوتی کرکے یونیورسٹی کو مالی طورپر مفلوج بھی کردیا اور عارضی ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور بھی‘ یہاںپر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملازمت اورتنخواہوں سے محروم احتجاج کرنے والے کلاس فور ملازمین یونیورسٹی کے لئے سرپلس نہیں ہیں بلکہ یونیورسٹی کو ان کی خدمات کی اشد ضرورت ہے جس دن سے ان کی کنٹریکٹ ختم ہوچکی ہے کاموں کے نمٹانے میں یونیورسٹی کافی مشکل میں پڑ گئی ہے مگر مسئلہ تنخواہوں کی ادائیگی ہے جس سے موجودہ حالت میں یونیورسٹی قاصر ہے غور طلب امر ہے کہ جب یونیورسٹی مستقل ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ کی پنشن کیلئے قرضے لیتی ہے تو کنٹریکٹ والے سینکڑوں ملازمین کی تنخواہیں کیسے ادا کرے گی؟ حکومت کہتی ہے کہ جامعات کے اخراجات حد سے زیادہ ہیں بلاشبہ حکومت کے اس موقف میں وزن ہے مگر اخراجات میں کمی لانے کیلئے تو دوسرے مختلف طریقے بھی بروئے کار لائے جا سکتے ہیں مثال کے طور پر ٹرانسپورٹ کی سہولیات میں بچت‘ تیل گیس بجلی اور ٹیلی فون میں بچت وغیرہ مگر ان تمام تر بچت کے باوجود بھی تعلیمی بجٹ میں تعلیمی نظام جبکہ موجودہ گرانٹ میں یونیورسٹیوں کا چلنا ممکن نہیں۔ تا وقت یہ کہ قومی بجٹ کا کم از کم چار فیصد تعلیم کےلئے مختص نہ ہو۔