عوام کی اصل مایوسی

 جمہوریت میں حکومت سے زیادہ ، اپوزیشن سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، ایک فعال اپوزیشن عوام کے حقوق کی ضامن ہوتی ہے۔اپوزیشن کی حالیہ تحریک کو 1977 ءکے اتحاد پی این اے سے ملانے والے درست نہیں ہیں۔ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) اور پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں مماثلت کے باوجود ان کے مقاصد میں بہت فرق ہے۔ پاکستان قومی اتحاد 1977ءمیں اس وقت قائم ہوا تھا، جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اپنی آئینی مدت سے چند ماہ پہلے عام انتخابات کا اعلان کیا ۔ بھٹو کا خیال تھا کہ 1977 میں اپوزیشن منتشر ہے اور وہ آسانی سے الیکشن جیت جائیں گے، لیکن انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اپوزیشن کی جماعتوں نے انتخابی اتحاد کا اعلان کرکے سب کو حیران کر دیااور الزام لگایا گیا کہ بھٹو کے مشیروں نے دھاندلی کا منصوبہ بنایا ہے اگر بھٹو ایسا نہ کرتے تو شاید اپوزیشن اتحاد بھی زیادہ دیر قائم نہ رہتا، کیونکہ جمعیت علمائے پاکستان‘ جمعیت علماءاسلام‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ پیرپگاڑا گروپ، پاکستان جمہوری پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان کئی سیاسی اور نظریاتی تضادات تھے، یہ بھٹو سے نجات کے ایک نکتے پر متفق ہوئے تھے، لیکن ان کے بقول جب قومی اسمبلی کے انتخابات میں کھلی اور سرعام دھاندلی ہوئی تو یہ اتحاد مضبوط ہو گیا۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بعد نئے اور شفاف الیکشن کے لئے تحریک شروع ہوگئی اور پھر جے یو پی کی تجویز پر اس تحریک کو نظام مصطفی کا نام دے دیا گیا۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے بھٹو نے شراب اور ریس پر پابندی لگائی، جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، اسلامی نظریاتی کونسل بنائی، لیکن عوامی تحریک کا زور ختم نہیں ہوا۔اور جب انہوں نے محدود مارشل لاءلگانے کی تجویز دی تو ملک میں مارشل لاءکا آغاز ہوااور پاکستان قومی اتحاد بھی ختم ہو گیا۔ پاکستان قومی اتحاد کے لیڈرمولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، اصغر خان، نوابزادہ نصراللہ خان، پروفیسرغفوراحمد، بیگم نسیم ولی خان، اور پیرپگاڑا بذات خود تحریک میں شامل تھے، ان پر کوئی اخلاقی الزام نہیں تھا اور دھاندلی سے عوام آگاہ تھی۔ اس کے برعکس پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے قیام سے پہلے اس میں شامل بڑی جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف تھی، ان سب پر بدعنوانی کے مقدمات قائم ہیں‘ اب بھی اس تحریک کے بڑے داعی سزا یافتہ اور عدالتی مفرور ہیں وہ خود لندن میں ہیں اور عوام کو کہہ رہے ہیں کہ وہ ڈٹ جائیں یا دو چار ماہ جیل بھی جانا پڑے تو گھبرائیں نہیں۔ حکومت بھی تمام تر انتظامی کمزوریوں کے باوجود مدت پوری کرنے کا اخلاقی جواز رکھتی ہے۔ 2018 ءکے انتخابات پر دھاندلی کے انفرادی الزامات کے باوجود اپوزیشن نے اسمبلیوں کو قبول کیا ہے۔ اس وقت بھی اپوزیشن رہنماو¿ں کی عدالت میں طلبی کے علاوہ اپوزیشن کے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں، کیونکہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں عوامی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی نہ ہی کوئی تحریک پیش کی گئی۔ عوام کو جمع کرنے کے لیے ایک جماعت مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہے، تو دوسری جمہوریت کا نام لیتی ہے اور اب تو صوبائی کارڈ بھی استعمال ہو رہا ہے‘ اسلئے پاکستان قومی اتحاد اور پاکستان جمہوری تحریک میں بہت فرق ہے اور اگر حکومت نے غلط فیصلے نہ کیے، تو شاید چند جلسوں بعد ہی اپوزیشن اتحاد کا قائم رہنا مشکل ہو جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی باتیں تو ہو رہی ہیں مگر عمل درآمد مشکل ہے اور پھر 2014ءمیں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کے احتجاجی استعفے قبول نہ کر کے مسلم لیگ (نون) کے اسپیکر ایاز صادق نے جو مثال قائم کی ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے یہ آپشن بھی غیر موثر بنایا جا سکتا ہے ویسے بھی الیکشن کمیشن نے بتا دیا ہے کہ اسمبلیوں میں دس ارکان بھی ہوں تو سینٹ کے الیکشن نہیں روکے جا سکتے اور شاید عوام بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اپوزیشن کی متنازعہ قیادت اور مفادات کے اتحاد سے بھی حکومت کو نہیں گرایا جا سکے گا اور موجودہ حالات جاری رہے، مہنگائی بڑھتی رہی تو وہ کیا کریں گے؟ اس سوال کا جواب حالات ہی دے سکتے ہیں جہاں اپوزیشن ایک طرح سے منقسم ہے اور کسی بھی بڑی تحریک چلانے کے لئے جو عوامی طاقت چاہئے اسکی دستیابی ایک مسئلہ ہے۔