ریل ایک عرصے تک سفر کا واحد ذریعہ رہا ہے۔ اس میں جو سہولیات ایک مسافر کو حاصل ہوتی ہیںوہ کسی دوسری سواری پر نہیں ہو تیں اور یہ باقی سواریوں سے زیادہ آرام دہ اور سہولیات سے پُر سواری ہے۔بر وقت اس کا ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تک جانا اوربر وقت اپنی سواریوں کو اپنی منزل تک پہنچانا ہر حکومت میں اس کا کام رہا ہے۔ ہم جب سکول میں پڑھتے تھے تو ہم چونکہ ایک ایسے گا و¿ں سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں ریل کا گزر نہیں ہوتا مگر ہمارے دوسرے دوست جو ایسے گاو¿ں سے آتے تھے کہ جو ریلوے سٹیشنوںسے قریب تھے اُن کے لئے یہ بہت ہی مفید ذریعہ تھا۔ بر وقت بچوں کو سکول اور دیگر ملازمین کا اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر پہنچانے کا یہ سستا ترین ذریعہ تھا ۔ اس میں بعض بچے بغیر ٹکٹ کے بھی سوار ہو جایا کرتے تھے اور چونکہ یہ سکول کے بچے ہوتے تھے اس لئے ٹکٹ کلیکٹر ان کو تنگ نہیں کرتے تھے۔ دراصل اُس وقت کے حالات یہ تھے کہ سکول اورکالج پڑھنے والے بچوں سے سارے لوگ ہی پیار کرتے تھے۔ اور ان کو ہر قسم کی سہولت دینے کو تیا ر رہتے تھے اس لئے ریلوے والے بھی ان بچوں کو زیادہ تنگ نہیں کرتے تھے اور ان کا بے ٹکٹا سفر کرنا بھی اُن کو بر ا نہیں دکھتا تھا ۔ ہاں بعض اوقات کوئی ایسا ٹی ٹی آ جاتا تھا کہ جو بچوں کو بھی بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے سے منع کرتا تھا اور اُن پر جرمانے بھی کرتا تھا مگرعا م طور پر ایسا نہیںہوتا تھا۔ ریل ایک ایسا سفر کا ذریعہ تھا کہ جس پر وقت کی پابندی کا بہت زیاد ہ خیال رکھا جاتا تھا اسی لیے عام طور پر اس پر ملازمین اور طلباءکی بڑی تعداد سفر کیا کرتی تھی ۔ اس میں ایک ہی کمی تھی کہ بعض دفعہ اس کا اور ملازمین یا طلباء کے حاضری کے وقت کی مطابقت نہیں ہوتی تھی ایسے میں بچے تو عام طور دیر سے سکول پہنچتے تھے اور ملازمین بھی اپنے کام پردیر سے پہنچتے تھے طلباءکی تو خیر ہے وہ ا یک دو لا ٹھیاں کھا کر کلاس روم چلے جایا کرتے تھے مگر ملازمین کے لئے ذرا گڑ بڑ ہو جاتی تھی اس لئے کہ بعض دفعہ اُن کے دیر سے پہنچنے پر اُن کی دیہاڑی کاٹ لی جاتی تھی۔ تاہم یہ سفر کا ایک آسان اور سستا طریقہ ہوا کرتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ پرائیویٹ بسوں کو بھی روٹ پرمٹ مل گئے اور چونکہ بسوں کی سواری ریل کے مقابلے میں تیز اور ہرو قت ملنے والی سواری ہے اس لئے لوگوں کا رخ اس طرف زیادہ ہو گیا اور ریل کے مسافروں میں کمی آ گئی مگر پھر بھی زیادہ لمبے روٹ کے لئے ریل ہی سفر کا بہترین ذریعہ ہے اور لوگ کراچی اور لاہور وغیرہ کے سفر میں ریل کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ اتنا لمبا سفر بسوں کے ذریعے کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس لئے کہ انسانی حاجات کے لئے بسیں وہ سہولیات نہیں دے سکتیں کہ جو ریل میں میسر ہیں اس لئے زیادہ لمبے سفر کے لئے ریل ہی کو ترجیح دی جاتی ہے اس لئے کہ ریل میں آدمی کھڑے ہو کر ، بیٹھ کر، لیٹ کر اور سو کر بھی سفر جاری رکھ سکتاہے جب کہ بسوں میں آپ کا ایک ہی جگہ اور ایک ہی پوزیشن میں سارا وقت سفر کاٹنا پڑتاہے۔ جو بہت لمبے سفر میں بہت زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور زیادہ لمبے سفر میں انسانی حاجات کے لئے بس میں کوئی سہولت نہیں ہوتی اسی لئے پشاور سے لاہور یا پشاور سے کراچی اور حویلیاں سے لاہور یا حویلیاں سے کراچی کا سفر ریل ہی کے ذریعے سہولت سے کرنا ممکن ہے ۔ جن بھی لوگوں نے یہ سفر بس کے ذریعے کیا ہے وہ صرف ایک ہی دفعہ یہ سفر کر سکے ہیں اور پھر توبہ کر لی ہے اس لئے کہ اتنے بڑے سفر کو ایک ہی طرح بیٹھے بیٹھے کرنا بہت ہی دشوار ہے جب کہ ریل کے ذریعے آپ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں اور اگر تھکتے ہیںتو اٹھ کے ادھر اُدھر گھوم پھر بھی سکتے ہیں اور سو بھی سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آرام سے حاجات ضروریہ سے بھی فارغ بھی ہو سکتے ہیں۔اب تو ریل میں تیز سفر کےلئے بھی سہولیات موجود ہیں کہ اب ریل کار بھی متعارف ہو چکی ہے کہ جس میں آپ انتہائی سہولت سے تیز ترین سفر کر سکتے ہیں۔ریل کار میں آپ کے بیٹھنے کے لئے بھی انتہائی آرام دہ سیٹیں ہیں اور اگر سونا چاہیں تو بھی بہت ہی آرام دہ گدوں کی سہولت موجود ہے۔ یعنی یہ ہر طرح سے ایک پر سکون او ر پر تعیش سفر ہے۔ آپ کے لئے کھانے پینے کی سہولیات بھی ریل اور ریل کار میں موجود ہیں اس لئے اس سفر میںآپ کو بغیر تکلیف کے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔