قیادت کا بحران

 آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم قوم مسلمان ہیں‘ فلسطین سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک یہود و ہنود کا ریاستی جبر قصہ پارینہ بن چکا ہے‘ اس کے بعد عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان اور سوڈان کو عالمی طاقتوں کی لڑائی کا میدان بنا کر تباہ کر دیا گیا‘ اس وقت یہ ریاستیں نام کو تو موجود ہیں لیکن کسی شمار میں نہیں‘ عرب ممالک کسی زمانے میں یک جان دو قالب ہوتے تھے‘ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک اور بھوک و افلاس میں وسائل کو باہم تقسیم کرنے والے تھے غیر عرب اسلامی ممالک کے درمیان بھی اسلامی اخوت اور بھائی چارہ قائم تھا جن کی سرحدیں ملتی تھی وہ ایک دوسرے کے معاون اور محافظ تھے‘ پاکستان، ایران اور ترکی آر سی ڈی معاہدہ کے تحت تعاون کے باہمی رشتے میں مربوط تھے‘ عرب ممالک بھی مشترکہ دوست و دشمن کے اصول پر عمل پیرا تھے ‘ تاہم حالات نے پلٹا کھایا اور مسلمان ممالک کے درمیان قریبی روابط ماضی کی طرح مضبو ط نہیں رہے بلکہ کئی حوالوں سے یہ باہمی اختلافات کاشکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جیسے ملک کو بھی شہ ملنے لگی ہے جو مسلم ممالک کے باہمی اتحاد کے باعث کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کررہا تھا ، اب اس نے کھلے عام فلسطینی علاقوں کوہڑ پ کرنے اور وہاں کے رہنے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے ہیں۔ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن کا سفر جاری ہے پاکستان کی موجودہ حکومت اور عسکری قیادت نے درست موقف اپنایا اور امریکہ و طالبان کو ایک میز پر بیٹھا دیا مگر اب امریکی صدر نے سال کے اختتام تک تمام امریکی افواج کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے‘ اگرچہ نومبر کے انتخابات کے بعد امریکہ میں قیادت تبدیل ہوجائے گی لیکن گروپ کے دوبارہ جیتنے کی صورت میں اس اعلان پر عمل ہوتا ہے تو اس سے افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہوگا یہ دور امن کا بھی ہوسکتا ہے اور ایک بار پھر نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کا بھی۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ امریکی موجودگی میں انٹرا افغان مذاکرات منطقی انجام کو پہنچ جائے اور مستقبل کا نقشہ ابھی سے واضح ہو ورنہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد کی طرح ہر گروپ کا بل پر چڑھائی کر دے گا‘ تاہم یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ یہ واحد تنازعہ ہے جس کا حل مذاکرات کی میز تک آیا ہے اس وقت دیکھا جائے تو مسلمان ممالک کو مختلف تنازعات میں پھنسا کر امریکہ برطانیہ اور روس کی اسلحہ فیکٹریاں اسلحہ فروخت کر رہی ہےں ‘کوئی ایسا فورم نہیں جو کم از کم غلط فہمیاں دور کر کے مسلمان ممالک کو احساس زیاں سے آگاہ کرے‘ اسلامی کانفرنس تنظیم او آئی سی اپنی افادیت کھو چکی ہے‘اس تنظیم سے اب فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے داد رسی کی امید نہیں رہی۔ اس وقت مسلمان حکمرانوں کی سوچ اپنے اقتدار کے استحکام سے آگے نہیں جاتی‘ اب سمجھ نہیں آتی کہ اپنے ملک میں مفاد کی سیاست روئیں یا عالم اسلام کی زبوں حالی پر آنسو بہائیں۔