ایک وقت تھا کہ جب بارش کے بعد ایبٹ آباد اس طرح دھلا ہوا ہوتا تھا کہ جیسے دھوبی کپڑے دھو کر دھوپ میں پھیلاتا ہے۔ پورے شہر اور اسکے مضافات میں ایک قطرہ پانی کا کھڑا نہیں ہوتا تھا ۔ بارش سڑکوں پر ہوتی تھی اُس کا پانی اپنے دائیں بائیںنالوں میں گر جاتا تھا اور اس عمل سے سڑکیں دھل دھلا کر اس طرح چمک رہی ہوتی تھیںکہ ان میں منہ نظر آتا تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ بارش کے بعد آپ اگر باہر نکلتے ہیں تو پورے ایبٹ آباد میں گھوم پھر کر آ جائیں آپ کے پاو¿ں کے ساتھ ایک ذرہ بھی دھول یا کیچڑکا نہیں ہو گا۔ یہ اُس وقت تک تھا کہ جب تک ہمارے ہاں جمہوریت نے پوری طرح پاو¿ںنہیں جمائے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ جمہوریت کا دور شروع ہوا اور ہمارے ایسے لوگوں کو وزارتیں مل گئیں کہ جن کا اس شہر میں ایک ٹکڑا زمین کا بھی نہیں تھا۔ اُن لوگوں نے اپنے علاقوں کو چھوڑکر ایبٹ آ باد میں رہائشیں اختیار کر لیں ۔ چونکہ انہوں نے جہاں بھی ایک آدھ کنال زمین اپنی رہائش کے لئے حاصل کی وہاں انہوںنے اپنے گھر کے قریب سے گزرتے نالوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ¾ اس میں سب سے زیادہ متاثر سرکلرروڈ ہوا کہ اس کے ساتھ بنے نالے چھت لئے گئے۔ تاج محل سینما سے لے کر شیخ البانڈی تک سڑک کے دونوں جانب ایسے نالے تھے جو بارش کے پانی کو اپنے قریب کی سڑک سے لے کر دریائے دوڑ تک لے جاتے تھے۔ اسی طرح ملک پور ہ کی طرف سے آنے والے پانی کو مختلف نالے تاج محل سینما کے قریب آکر بڑے نالے سے مل جاتے تھے اور یہ پانی بغیر کچھ نقصان کئے دریائے دوڑ تک اس سارے پانی کو لے جاتے تھے۔ جب نالوں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو ایبٹ آباد میونسپل کمیٹی نے بھی کنج گراو¿نڈ کے ساتھ سے گزرنے والے بڑ ے نالے کو چھت کر وہاں دکانیں بنا لیں اور کرائے پر دے دیں ۔ ادھر جناح باغ کے ساتھ گزرنے والے نالے کو جو نمبر ایک ہائی سکول کے آس پاس اور کچہریوںسے آنے والے پانی کو لے کر تاج محل سینما کے قریب سے گزرنے والے نالے سے ملا تا تھا اُس کو بھی چھت کر اس پر بھی دکانیں بنا کر کرائے پر دے دیں۔ اس طرح اس طرف سے آنے والے پانی کا بھی راستہ روک دیاگیا۔ جس باغ جناح میں بارش کے بعد ایک نکھر ے نکھرے سبزے پر چہل قدمی کا لطف اٹھایا جاتا تھا وہاں اس کے بعد اتنے کیچڑ کی حکومت ہوتی ہے کہ کوئی شخص بھی باغ جناح میں سے گزرنے کی بھی جرات نہیں کرتا۔ تاج محل کے ساتھ والے نالے کو بھی ڈھانپ دیا گیااور اس سے گزرنے والے پانی کو سڑک پر چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرف سے گزرنے والے نالے کو آگے آنے والے عمارتوں نے اپنے قبضے میںکر لیا ۔ اب یہ حال ہے کہ یہ نالہ صرف ایک جگہ سے ننگا ہے جہاں گورنمنٹ بوائز کالج کا گراو¿نڈ شروع ہوتا ہے جہاں کالج کا گراو¿نڈ ختم ہوتا ہے اس کے بعد پھر لوگوں کے بنگلے تھے جن کو گرا کر دکانیں بنا لی گئی ہیں اور نالے کو کہیں چھپا لیا گیا ہے ۔ اس کے بعد کا نالہ کہیں دور جا کر کھلتا ہے اور شہر سے آنے والے نالے سے مل جاتا ہے۔ دوسری طرف کا نالہ جو کیہال سے آنے والے پانی کو لے کر جاتا تھا وہ کچھ عرصے تک تو کھلا تھا مگر کسی کو خیال آیا کہ یہ تو اچھی بات نہیں ہے کہ نالہ کھلا ہو اس لئے کہ اس میںلوگوں کے گرنے کا خدشہ ہے اس لئے اس نالے کو شیخ البانڈی تک چھت کر لیاگیا ۔ اس کا فائدہ یہ ہو ا کہ کیہال اور کنج جدید کا پانی نالوں میں جانے کی بجائے سڑکوں پر دوڑنے لگا اور جب بارش ہوتی ہے تو سرکلر روڈ سے گزرنا محال ہو جاتا ہے ۔ اس سڑک پر بارش میں کئی اموات بھی ہو چکی ہیں۔ہم نے اس بات کا کئی دفعہ اپنے کالموں میں ذکر کیا ہے مگر کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی ، اب سنا ہے کہ حکومت کا اس طرف کچھ دھیان ہو ا ہے اور ان چھتے ہوئے نالوں کو ننگا کرنے کا پلان بنایا ہے۔ یہ ایک بہت ہی قابل ستائش اقدام ہے او رہمیں امید ہے کہ جب ایبٹ آباد کے نالے آزاد ہوں گے تو ہم کو پھر سے وہی ایبٹ آباد مل جائے گا کہ جس میں بارش کے بعد سیر کو نکلیں تو آپ کے پاو¿ں کے ساتھ ایک ذرہ برابر بھی مٹی یا کیچڑ نہیں ہو گا۔