سیاست میں عدم برداشت اور سچ کو تسلیم نہ کرنے کے باعث کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا نا ممکن ہو چکا ہے. جب سیاستدان ایک پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو قبول نہیں کر سکتے، تو ان کو مخالفین کی سیاسی کامیابیاں کیسے ہضم ہو سکتی ہیں. پس پی ڈی ایم کا گوجرانوالہ جلسہ اپوزیشن کے نقطہ نظر سے تاریخ ساز تھا، لالہ موسی سے لے کر لاہور تک عوام ہی عوام تھے. جبکہ حکومتی موقف کے مطابق 9 جماعتیں مل کر بھی 25000 کی گنجائش والا جناح سٹیڈیم نہیں بھر سکیں‘ دونوں اطراف سے اپنے اپنے دعوے اور اپنی اپنی دلیلیں ہیں لیکن ملک کے اصل مسائل کی حکومت کو پرواہ ہے نہ اپوزیشن کو احساس‘ بھارت اس وقت زخم خوردہ سانپ کی طرح پاکستان اور خطے کے مسلمانوں کو ڈسنے کے لیے پھنکار رہا ہے‘ پہلی بار بھارت کو عالمی سطح پر مذہبی انتہا پسندی اور عالمی دہشت گردی کی حمایت پر تنقید کا سامنا ہے‘ماضی میں وہ ہندوتوا کی نفرت اور غیر ہندو اقلیتوں پر مظالم کو کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد کی پس منظر میں دبانے میں کامیاب رہتا تھا اور دنیا حقیقت جاننے کے باوجود مسلم دشمنی میں اس کی حمایت کرتی تھی‘ لیکن اب امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے کھل کر بھارت کا منفی کردار نمایاں کیا ہے‘ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی اور ان کی مدد پر امریکہ بھی حقیقت جان گیا ہے اور پھر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف پر بھارت ننگا ہو چکا ہے‘ اس پر بھارت کے اندرونی حالات، ہندوتوا کا پر چار اقلیتوں کی حق تلفی اور ریاستی سطح پر سیکولرزم کی خلاف ورزی سےاس کا جمہوری چہرہ بھی بھیانک ہو گیا ہے‘ کرونا میں غلط حکمت عملی اور روزانہ اوسطاً 80 ہزار مریضوں کا اضافہ اور ایک، ڈیڑھ ہزار افراد کی ہلاکت سے بے چینی پھیل رہی ہے اور شکست خوردہ مودی پاکستان میں اپنی دہشت گردی تیز کرکے شیطانی جیّلت کو ہوا دے رہا ہے‘ گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت کے ایجنٹ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کے ذریعے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں، پاکستان کے اندر بھی بھارت اپنے آلہ کاروں کو متحرک کر رہا ہے‘ گزشتہ روز گوادر اور شمالی وزیرستان میں دہشت گرد کاررائیوں میں ایک افسر سمیت 20 جوانوں کی شہادت اس بات کا کھلا اظہار ہے کہ بھارت اپنی خفت مٹانے کیلئے پاکستانی فورسز کےخلاف بہیمانہ کاروائیاں تیز کر رہا ہے‘ گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک حکومتی عہدے دار کی طرف سے بھارتی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے اور بڑی دہشت گرد گروہوں کےساتھ بھارتی رابطوں کے ناقابل تردید ثبوت دیئے گئے تھے‘اس کے بعد بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات بھارت کی طرف سے رد عمل کی طرح سامنے آئے ہیں‘ دہشت گردی صرف حکومت یا مسلح افواج کا مسئلہ نہیں ہے یہ پوری قوم کےلئے لمحہ فکریہ ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں، حالانکہ دونوں یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو دباو¿ کے ذریعے زیر نہیں کیا جاسکتا، اپوزیشن جلسے جلوسوں سے حکومت نہیں گرا سکتی اور حکومت اپنی پکڑ دھکڑ سے اپوزیشن کو ڈرا نہیں سکتی. البتہ قومی یکجہتی اور عوامی مفادات کو ضرور نقصان پہنچ رہا ہے‘ مہنگائی اور بے روزگاری پہلے ہی عوام کےلئے وبالِ جان بنی ہوئی ہے،جبکہ سیاسی انتشار سے بھارت جیسے دشمن کو بھی دہشتگردی تیز کرنے کا موقع مل رہا ہے‘ اس کے باوجود اعلیٰ سیاسی قیادت عدم برداشت کو پس پشت ڈال کر بھارت کو کوئی متفقہ پیغام دینے کو تیار نہیں‘ پاکستانی عوام فطرت میں تماش بین ہیں یہ سیاسی ہلڑ بازی کو دیکھ کر مسرور ہوتے ہیں‘ لیکن اب تو عوام خود تماشا بنی ہوئی ہے اور ملک بھارت کے ایجنٹوں کے نشانے پر ہے، ایسے میں قومی جذبے کے تحت ان حالات کا مقابلہ کرنا اپوزیشن اور حکومت دونوں کا کام ہے ،ووٹوں سے منتخب حکومت کو مدت پوری کرنے کاموقع دینا اور انتخابات کیلئے عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموا ر کرنا ہی وہ بہتر پالیسی ہے جس سے ملکی مفاد وابستہ ہے اور اس کا احساس حزب اختلاف اور صاحبان اقتدار دونوں کو کرنا ہوگا۔