امریکی انتخابات اور ٹرمپ کی جارحانہ پیش قدمی

امریکی صدارتی انتخابات قریب آگئے ہیں۔ اسّی سال کے بوڑھے ڈونلڈ ٹرمپ، دیگر لوگوں کے برعکس کورونا سے بھی جلد ہی نجات حاصل کر کے میدان میں آگئے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں اس بات پر مخصوص تحقیق کے بعد خبریں چلائی گئی تھی کہ اس عمر میں ٹرمپ کا کورونا سے صحت یاب ہونا مشکل ہے، لیکن حسب معمول ٹرمپ نے سب کو ایک بار پھر حیران کر دیا۔ الیکشن مہم میں گزشتہ مہم کی طرح اقدار کی پاسداری پر زیادہ دھیان نہیں دے رہے اور حسبِ ضرورت نسلی اور مذہبی تعصب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مدمقابل سابق نائب صدر جوبائیڈن کی کوشش ہے کہ سنجیدہ انداز میں انتخابی مہم چلائیں اور سلجھے ہوئے امریکی شہریوں کو متاثر کریں، لیکن دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی پڑھے لکھے اور سنجیدہ ووٹروں کی کمی ہے، اور اکثریت کی ہمدردی حاصل کرنے والا ہی جیت سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس جمہوریت کی حقیقت بہت پہلے بیان کر دی تھی۔
جمہوریت ایسی طرزِ حکومت ہے کہ جس میں...بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے اس لئے کالج کے پروفیسر کے ساتھ مل مزدور بھی ایک ہی ووٹ کا حق رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تجربہ حاصل کر لیا ہے کہ اصول و اقدار کے جھنجٹ میں پڑنے کے بجائے عام امریکی شہریوں کو متوجہ کیا جائے تو ان کے ووٹ فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔ 2016 میں انہوں نے غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف تعصب کو ہوا دیکر امریکیوں کی ہمدردی سمیٹ لی تھی، اور اب بھی وہ حریف جماعت کی ایک خاتون سینیٹر کے خلاف ایسی زبان استعمال کرنے سے باز نہیں آئے۔ امریکی صدر کی پالیسیوں سے دنیا بھر کی سیاست پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے صدارتی انتخابات پردنیا کی نظریں ہوتی ہیں۔ بالخصوص عالمی سطح پر حریف ممالک، جیسے روس اور چین میں اپنے مفادات کے لیے انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی دیکھی جا سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ پر تو گزشتہ انتخابات میں یہ الزام بھی لگا تھا کہ ان کو جتوانے میں روس نے مداخلت کی تھی، اور اس بات کی باقاعدہ انکوائری بھی ہوئی تھی‘اب بھی اگر ٹرمپ پر روس نوازی کا الزام ہے تو ٹرمپ بھی کھلے عام جوبائیڈن پرالزام لگا رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو چین کے حوالے کر دے گا۔ ہم سمجھتے تھے کہ صرف پاکستان اور بھارت کے عام انتخابات میں ہی ایک دوسرے سے تعلق کو زیر بحث لا کر ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن امریکہ کے الیکشن میں بھی ان ممالک سے تعلق کو انتخابی ہتھیار بنایا جا رہا ہے جن کے بارے میں امریکی حساسیت رکھتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ صدر ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی رائے کو پس پشت ڈال کر افغانستان کی دلدل سے جان چھڑانے اور پاکستان کی تجاویز کو قبول کرنے میں دلیرانہ فیصلے کیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج افغانستان امن کی راہ پر گامزن ہے اور مستقل سیاسی حل کے لیے افغان گروپوں میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ کو کامیابی ملتی ہے تو کم ازکم امریکی فوج کا انخلاءضرور مکمل کریں گے‘دوسری جانب جوبائیڈن کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے‘ جو دنیا بھر میں امریکہ کی فوجی بالادستی کا داعی ہو سکتا ہے مشرق وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈپلومیسی کے ذریعے وہ کامیابی حاصل کی جو 75 سال کی جارحانہ پالیسی سے ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ عرب ریاستوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ ہمارے لئے کتنا ہی ناپسندیدہ ہو، لیکن امریکیوں کیلئے ایک بڑی پیش رفت ہے اور اس کا ٹرمپ کو ضرور فائدہ ہوگا، البتہ ایران کے حوالے سے سفارتی ناکامیاں ٹرمپ کیلئے پریشان کن ہو سکتی ہیں‘ اسکے باوجود ٹرمپ بھرپور طریقے سے انتخابی میدان میں ہیں، اور جیسا کہ عام خیال تھا کہ جوبائیڈن آسانی سے جیت جائینگے‘ اب یہ بات غیر یقینی ہو گئی ہے اگرچہ اب بھی کسی فریق کے حوالے سے حتمی بات کہنا مشکل ہے‘ لیکن کورونا کو ہرانے کے بعد ٹرمپ میں ایک نیا جوش آ گیا ہے، اور ہر دن سیاسی تجزیے ان کے حق میں بدل رہے ہیں۔