انسان صدیوں سے جانتاآیا ہے کہ آنتوں کے مسائل اسے شدید دماغی اُلجھن، انزائٹی اور نفسیاتی امراض سے دوچار کرسکتے ہیں۔ تاہم 21ویں صدی کی جدید سائنسی تحقیق نے پہلی بار ہمیں یہ بتایا کہ ہمارے ’گَٹ مائکروبز‘ (انسان کے نظام انہضام کی نالیوں میں پائے جانے والے انتہائی باریک جرثومے) ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہوتے ہیں۔ تحقیق مزید بتاتی ہے کہ ہمارے گَٹ مائکروبز اور ہمارے ذہن کے مابین ایک تعلق ہوتا ہے اور یہ تعلق ہمارے جذبات، موڈ اور رویوں کو ایک ضابطہ اور ترتیب دیتا یعنی ریگولیٹ کرتا ہے۔
آپ نے پروبائیوٹکس کے بارے میں ضرور سُنا ہوگا جو ہماری غذا میں شامل وہ زندہ بیکٹیریا اور خمیرہیں جو نظام انہضام کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں اور آپ نے پری بائیوٹکس کے بارے میں بھی سُنا ہوگا، جو بنیادی طور پر پروبائیوٹکس کی غذا ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے ’سائکو بائیوٹکس‘ کے بارے میں سُنا ہے؟ سائکوبائیوٹکس وہ پروبائیوٹکس اور پری بائیوٹکس ہیں، جو آپ کے موڈ کو بہتر بناتے ہیں۔سائکوبائیوٹکس ان بیکٹیریا پر مشتمل ہوتے ہیں جو اکثر دہی، گرین یا بلیک ٹی، اور گائے کے دودھ وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔
سائکو بائیوٹکس، کامپلیکس کاربو ہائیڈریٹس (فائبر) والی غذاؤں جیسے مٹر، اناج اور سبزیوں میں بھی پائے جاتے ہیں، جو گلوکوز (بلڈ شوگر) میں تبدیل ہوکر جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ حرفِ آخر یہ کہ، فائدہ مند بیکٹیریا کو اگر سب سے زیادہ کوئی چیز پسند ہے تو وہ ہے ’فائبر‘۔ حیران کن طور پر گزشتہ 50برسوں سے اگر ہم اپنی غذا سے کسی چیز کو چھان کر مسلسل نکالے جا رہے ہیں تو وہ بھی ’فائبر‘ ہی ہے۔
ایک شخص کو روزانہ 30گرام فائبر درکار ہوتا ہے۔ اگر ہم خود پر اور اپنے اِرد گِرد نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ناشتے میں وہائٹ بریڈ، ریفائنڈ آٹے کے پراٹھوں اور فروٹ کیک سے لے کر رات کے کھانے کے بعد کی آئس کریم تک،ہم ’فائبر سے پاک‘ غذائیں کھارہے ہیں۔ ایسی غذائیں ہمیں ذیابطیس، موٹاپے، انزائٹی اور ڈپریشن سے دوچار کررہی ہیں۔