ہری پور سے ایک تعلیم دوست بھائی ڈاکٹر طارق خان اپنے ایک خط میں رقمطراز ہیں کہ یونیورسٹیوں کی موجودہ مالی ابتری کے بارے میں آپ کی تحریریں پڑھ کر بہت دکھ ہوتا ہے لکھتے ہیں کہ میرے ذہن میں اصلاح احوال اور مسئلے کے دیرپا حل کے بارے میں ایک تجویز ہے اگر عملی جامہ پہنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری جامعات کی حالت میںسدھار نہ آئے ڈاکٹر محترم کا کہناہے کہ ہمارے صوبے خیبر پختونخوا میں روزانہ جائیداد کی خریدوفروخت کے ہزاروں انتقالات ہوتے ہیں اور ہر انتقال میں سرکاری فیس کے علاوہ کچھ اور چارجز بھی ہرخریداردیتا ہے ہماری حکومت ایک باقاعدہ نوٹیفیکیشن صوبے کے تمام تحصیلداروں اور پٹواریوں کیلئے نکالے اور صرف ایک یادو فیصد ہر انتقال پر یونیورسٹی فنڈ کیلئے کاٹا جائے اور یہ رقم نیشنل بینک میں ایک مخصوص اکاﺅنٹ میں ڈالی جائے آپ یقین کرلیں کہ رقم یونیورسٹی کیلئے کافی تو کیا بلکہ اس میں بچت بھی ہوگی جبکہ عام آدمی پر کوئی بوجھ بھی نہیں پڑے گا ڈاکٹر صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ہر سال بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا کرتے تھے اور سیلاب فنڈ کے نام سے کئی جگہوں پر رقم کاٹی جاتی تھی میرے نزدیک تو ڈاکٹر محترم کی تجویز بہ سروچشم مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر کام کے لئے سنجیدگی‘ متانت اور ارادے کی پختگی ناگزیر ہوتی ہے یا بہ الفاظ دیگر کسی مسئلے سے نمٹنے یا کام کو انجام دینے کیلئے پہلے سوچ بچار پھر لائحہ عمل طے کرنے اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی فرد کوئی جماعت یاکوئی حکومت کسی مسئلے کے حل میں سنجیدہ ہو میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کی تجویز کیساتھ میری یہ تجویز بھی اگر شامل ہو تو بے فائدہ نہ ہوگی کہ پارلیمنٹرین صاحبان تو ویسے بھی سرکاری ملازمین نہ ہوتے ہوئے بھی بھاری بھر کم تنخواہیں اور الاﺅنسز اسکے باوجود وصول کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کو اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں اگر اس وقت تعلیمی زبوں حالی کے خاتمے کیلئے ان کی تنخواہوں اور الاﺅنسز سے کچھ حصہ تعلیمی سرچارج کے نام سے کاٹا جائے تو میرے نزدیک جامعات کی یہ موجودہ حالت جس میں وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن اور نادار طلباءکو تعلیمی وظائف نہیں دی سکتیں بہت جلد حکومت کو قرضہ دینے کی پوزیشن میں تبدیل ہو جائیگی لیکن اگر ایسا ہو جائے جو قطعی طورپر ممکن ہے تو اس سے تو پوری قوم تعلیم یافتہ اورہنرمند ہو جائے گی اور جب قوم تعلیم یافتہ ہو تو پھر سرمایہ داروں کا پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کیا کام ؟ انہیں تو ایسے سادہ لوح اور بے شعور لوگ چاہئے جو ہر انتخابی سیزن میں انکے کام آسکیں بہرکیف ان تجاویز پر عملدرآمد کا ارادہ تو دور دور تک محسوس نہیں ہورہاہے اورجب حالت یہ ہے تو پھر اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ موجودہ دور بلکہ کم از کم موجودہ حکومت میں جامعات کا بجٹ کم از کم ایک کھرب ہونا ناگزیر ہے مگر کڑے احتساب مالی شفافیت‘ کفایت شعاری یا بہ الفاظ دیگر جامعات کی شاہ خرچیوں کے خاتمے کیساتھ۔ ان سطور میں راقم نے کئی بار یہ تجویز بھی پیش کی کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کیلئے ایک انڈومنٹ فنڈ کا قیام ناگزیر ہے اور پھر فنڈ قائم کرنے کا طریقہ کار بھی تجویز کیا مگر کوئی عملدرآمد سامنے نہیں آیا اس وقت سرکاری جامعات بالخصوص پشاور یونیورسٹی کیمپس کی جامعات میں بے چینی کی جو فضا قائم ہے اور جامعات سینکڑوں کنٹریکٹ غریب درجہ چہارم ملازمین کو فارغ کر رہی ہیں اسکی درپردہ وجوہات جو بھی ہوں مگر ظاہری وجہ یہ ہے کہ جامعات کے پاس ضرورت کے باوجود ان ملازمین کو ملازمت پر رکھنے کیلئے پیسے نہیں ہیں صرف یہ نہیں بلکہ مستقل ملازمین بھی بے چین ہیں کیونکہ یونیورسٹیاں انکے مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔