ٹریفک کے مسائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہزارہ موٹر وے نے ایبٹ آباد پر ٹریفک کا بوجھ کچھ تو کم کیا ہے مگر اس کے باوجود ابھی تک ٹریفک جام کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔مانسہرہ روڈ پر ایبٹ آباد شہر سے لے کر منڈیاں کمپلیکس تک ابھی تک ٹریفک کے دباو¿ میں کوئی کمی نہیں آسکی ‘ سڑک کو دو رویہ بھی کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود ٹریفک کا دباو¿ کم نہیں ہو پایا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ دکھائی دیتی ہے کہ ایبٹ آباد شہر سے مانسہرہ او رٹھنڈیانی اور نتھیا گلی کی طرف نکلنے والی سڑک پر ٹریفک کا دباو¿ اس وجہ سے بھی ہے کہ اس سڑک پر ایک تو بڑا ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس ہے جس میں مضافات کے سارے ہی مریض آتے ہیں یہاں تک کہ مانسہرہ اور حویلیاں اور ہری پور تک کے مریض اس ہسپتال میں علاج کی خاطر آتے ہیں ۔ دوسرے دوسرے اس روڈ پر بڑے بڑے تعلیمی ادارے بھی ہیں اورٹھنڈیانی ،نتھیا گلی اور ایوبیہ جانے والی ٹریفک بھی اسی شہر سے ہو کر گزرتی ہے اور جو ٹریفک راولپنڈی یا پشاور سے مانسہرہ اوگی وغیرہ کےلئے جاتی ہے وہ بھی عموماً ایبٹ آباد شہر سے ہو کرگزرتی ہے اس لئے کہ ان بسوں اور ویگنوں میں جن سواریوں نے داتا اور قلندر آبادوغیرہ جانا ہوتا ہے لا محالہ وہ ایبٹ آباد سے ہو کر ہی گزرتی ہیں اور فوارہ چوک سے شہر کے اندر جانے والی ، مانسہرہ وغیرہ جانےوالی اور سب سے زیادہ پبلک سکول تک جانے والی سواریاں فوارہ چوک سے ہی ہو کر گزرتی ہیں اسلئے یہاں ٹریفک کا دباو¿ بہت زیادہ ہوتاہے اسی لئے یہاں عموماً ٹریفک جام کا سلسلہ صبح سے شام تک جاری ہی رہتا ہے‘بہت دفعہ تو ایمبولینس بھی پھنس جاتی ہیں اور ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم کسی کےلئے بھی راستہ نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ ایمبولینسوں کےلئے بھی نہیں ۔ باہر کے ملکوں میں دیکھا گیا ہے کہ کتناہی بڑ جلوس کیوں نہ جا رہاہو جونہی ایمبولینس کا ہارن بجتا ہے لوگ فوری طور پر اس کےلئے راستہ بناتے ہیں اور اس جلوس میں سے بھی ایمبولینس اپنی پوری سپیڈسے گزر جاتی ہے یہ ہماری بے حسی کے حد ہے۔ اسی طرح اگر آپ ٹریفک جام کا تجزیہ کریں تو وہ اسی طرح ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اپنی گاڑی کو بغیر سوچے سمجھے آگے لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں وہ خود بھی پھنس جاتے ہیں اور باقی ٹریفک کو بھی بند کر دیتے ہیں ۔ نہ وہ خود اپنی منزل پر پہنچ پاتے ہیں اور نہ دوسروں کو وقت پر اپنی منزل پر پہنچنے دیتے ہیں۔ ہم تو خیر کبھی باہر کے ملکوں میں نہیںگئے مگر جو بھائی ادھر سے ہوکے آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان ملکوں میںٹریفک جام نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ وہ آہستہ ضرور جاتے ہوں گے مگر گاڑیاں ر کیں گی نہیں ۔ اس لئے کہ وہاںاور ٹیکنگ کا کوئی تصور نہیںہے ۔