سینیٹ کو ایوانِ بالا ہی رہنے دیا جائے

 حسب توقع اپوزیشن اتحاد، پی ڈی ایم کے کراچی جلسے نے ملک میں سیاسی ہیجان میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی ایک جھلک گزشتہ رز سینیٹ اجلاس میں بھی نظر آئی، جہاں مسلم لیگی سینیٹر مشاہد اللہ خان کے جارحانہ خطاب کو روکنے کےلئے حکومتی سینیٹرز نے بھی شور شرابہ کیا۔ اسی دن قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا، ورنہ وہاں بھی اپوزیشن جلسوں کے آفٹر شاکس محسوس ہونے تھے۔ سینٹ پاکستانی پارلیمنٹ کا ایوان بالا ہے، اس میں چاروں صوبوں کے مساوی ارکان ہوتے ہیں جو اس بات کی ضمانت ہیں کہ کسی صوبے کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ سینٹ میں عام طور پر ایسے سینئر اور تجربہ کار سیاست دانوں کو لایا جاتا ہے، جو اپنے تجربے اور سنجیدہ سوچ کے ذریعے قانون سازی میں اپنے صوبے کے حقوق کا تحفظ کریں‘اس لئے سینٹ کو کئی حوالوں سے اہمیت حاصل ہے اور یہاں پر قومی اسمبلی کے مقابلے میں زیادہ اتفاق رائے کا ماحول پایا جاتا ہے اس طرح ماضی میں بھی سینٹ وہ ایوان ہے جہاں پر قومی اسمبلی جیسا شورشرابا اور ہنگامہ خیزی سے اجتناب کیا گیا ہے اور اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایوان کو اتفاق رائے کے لئے چھوڑا جائے اور وہاں پر مخالفت میں اس حد تک جانے سے گریز کیا جائے کہ پھر واپسی ممکن نہ ہو ‘ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ یہاں پر قومی مسائل کے حوالے سے ایسا ماحول پروان چڑھانا حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی ذمہ داری ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘ اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر ایسے اراکین کا انتخاب بھی ضروری ہے جو قومی مسائل اور مختلف امور کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں موجودہ ایوان میں یہ تشنگی کسی حد تک موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ارکان سینٹ میں بات بھی نہیں کر پاتے۔ ویسے بھی اب سینٹ میں کسی آئینی نکتے پر بحث کم ہی ہوتی ہے، البتہ اپنی اپنی سیاسی قیادت سے وفاداری نبھانے کےلئے جوش وخروش زیادہ نظر آتا ہے اور اس حوالے سے جذبات قابو سے باہر ہو جانا روز کا معمول ہے۔ جس دوران غیر پارلیمانی الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، آئین سازی میں بھی صوبائی مفادات سے زیادہ سیاسی مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں سینٹ میں بیرسٹر اعتزاز احسن، بابراعوان، مشاہد حسین سید، سید ظفر علی شاہ، سعید غنی، حافظ حسین احمد، اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے سینیٹر رہے ہیں، جو مدلّل اور موضوع پر دسترس کے باعث قابل توجہ تقریر کرتے تھے۔ راجہ ظفر الحق اور مشاہداللہ خان بھی بزرگ اور سنجیدہ مقررین میں شمار ہوتے ہیں، اگر راجہ ظفر الحق تاریخی حوالے سے اپنی تقریر کو سجاتے تو مشاہداللہ خان بر محل شعر و شاعری سے اپنی بات کو خوبصورت بنانے کا فن جانتے ہیں، لیکن اکثر طنزیہ شاعری یا حوالہ دینے سے ان پر مخالفین بڑھک جاتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ کسی بھی لہجے میں بات ہو، مشاہد اللہ خان پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے، اب وہ عمر رسیدہ اور بیمار بھی ہیں۔ عام جلسوں میں نہیں جا سکتے، لیکن سینیٹ کے فلور کو عام جلسہ بنا کر اپنی پارٹی کی نمائندگی ضرور کرتے ہیں، یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ حکومتی ارکان ان کی تقریر میں مداخلت نہ کریں تو یہ بہترین خطاب کرتے ہیں، لیکن مداخلت سے بہرحال پٹری سے اتر جاتے ہیں، اگرچہ اس وقت سیاسی ماحول میں ہوش سے زیادہ جوش کا غلبہ ہے، اور حکومت و اپوزیشن کے لہجے گرم ہو چکے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کم ازکم ایوان بالا کو شائستہ اور شستہ زبان و کلام سے چلایا جائے ایوان بالا اور کسی عام جلسے کے ماحول کا فرق ملحوظ رہنا چاہئے۔ یہ ایک فورم تو ایسا رہے جہاں اپنی بات پھیپھڑوں کے زور سے کرنے کے بجائے، دلائل کے زور سے کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایوانوں میں قانون سازی سے زیادہ سیاست پر زور دیا جارہا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ مخالفین کی رائے کو رد کرتے ہوئے اپنے موقف کو سامنے لایا جائے جبکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جن سے عام آدمی کی زندگی آسان ہو اور ان کو معمولات زندگی میں سہولت میسر ہو اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے خاتمے اور اشیائے صرف کے نرخوں کے حوالے سے بھی حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موثر لائحہ عمل تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوں تاکہ عوام کی مشکلات کم ہوں۔ خاص کر موجودہ حالات میں جب اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ تمام توجہ معیشت کی بحالی پر مرکوز کی جائے تاکہ عام آدمی کو اس کے ثمرات سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے۔