ایک ریاست کا ذکر

آج سے ساٹھ سال قبل تک پاکستان کی جنت نظیر وادی سوات میں ایک ایسی ریاست قائم تھی، جہاں نہ صرف ہر ایک کیلئے یکساں اور مساوی انصاف موجود تھا، 1917 میں سوات کے عوام کے لئے روحانی اور قلبی عقیدت کے محور، سیدو بابا کے پوتے، میاں گل عبدالودود کو والی سوات مقرر کیا گیا۔ سیدو بابا کے خاندان کے لیے عوام کے دل میں احترام کا جذبہ موجود تھا، اس لئے ان کو عوامی سطح پر اور خوانین کے لیے بھی قبولیت حاصل ہوگئی۔ نئے والی ریاست نے سب سے پہلے مقامی عمائدین اور علماءکی مشاورت سے آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا، جس میں اسلامی شریعت، قبائلی رواج اور روایات کو پیش نظر رکھا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ آئین کی نظر میں سب برابر ہیں، ماضی کے برعکس عام رعایا کو بھی انصاف کے لئے قاضی کی عدالت میں رسائی کا حق مل گیا، عدالت میں کسی وکیل کی ضرورت نہیں تھی، اور درخواست لکھنے کے لیے بھی وثیقہ نویس مقرر ہوئے، جن کو معاوضہ ریاست دیتی تھی۔ اس طرح چھوٹے بڑے اور مالک مزارع کی تفریق کے بغیر ہر شہری کے لیے فوری اور مفت انصاف عام ہو گیا،۔ امن وامان کو یقینی بنانے کےلئے سابقہ جاگیرداروں اور خوانین کے پاس موجود اسلحہ ریاست کے پاس جمع کیا گیا اور نجی لشکر ختم کیے گئے، اس سے عام شہریوں کو تحفظ کا احساس ہوا۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں سوات ایسی ریاست تھی، جو قدرتی حسن اور انتظامی نظم کے حوالے سے ایک مثال تھی، اور اس دور میں پاکستان کے دورے پر آنے والے غیر ملکی حکمرانوں اور اہم شخصیات کو سوات کا دورہ کرایا جاتا، جن کی میزبانی والی ریاست کرتے۔1949 میاں گل عبدالودود نے اپنی زندگی میں ہی، اپنے بیٹے میاں گل جہانزیب کو والی مقرر کر دیا، جو خاندانی اور علاقائی روایات کی پاسداری کے ساتھ، جدید علوم سے بھی بہرہ مند تھے۔ انہوں نے آئین پر عملداری کے ساتھ ریاست میں تعمیرات اور عوام کے لئے روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے، اگرچہ عام شہری اس ریاست میں خوش اور خوشحال تھے، لیکن کچھ حلقے ایسے بھی بہرحال موجود تھے، جن کی سرداری اور بڑائی کو ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ والی ریاست میاں گل جہانزیب نے اپنے بیٹے میاں گل اورنگزیب کو ولی عہد مقرر کیا تو ساتھ ہی ان کو پاکستان کی فوج میں بھرتی کروایا، عسکری تربیت کے بعد وہ کپتان کے عہدے تک پہنچے اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے اے ڈی سی بھی مقرر ہوئے۔ صدر محمد ایوب خان کے بعد جب جنرل یحییٰ خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے اور انہوں نے اپنے ایک مشیر جنرل پیرزادہ کے مشورے پر 29 جولائی 1969 کو ریاست سوات کی خود مختار حیثیت ختم کرکے پاکستان میں شامل کر لیا اور سوات صوبائی انتظامی قبائلی علاقہ (پاٹا) کا حصہ قرار پایا۔ اس کے بعد بھی والی سوات کے خاندان کی مقامی سطح پر عزت و تکریم قائم ہے۔ اور لوگ ریاست سوات کے اس دور کو یاد کرتے ہیں، جب امن، انصاف، تعلیم، صحت اور روزگار کے سب کے لئے یکساں مواقع موجود تھے۔ آخری والی سوات میاں گل جہانزیب کی تحریک آزادی میں خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ جبکہ ولی عہد میاں گل اورنگزیب 1970 کے بعد بھی پاکستان کے لئے اہم خدمات سرانجام دیتے رہے، وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے اور بعد میں گورنر بلوچستان اور گورنر سرحد (خیبر پختون خوا)بھی رہے۔ ریاست سوات کے قیام سے لے کر پاکستان میں باضابطہ انضمام تک ایک ایسی شاندار تاریخ ہے، جس کے کئی گوشے ابھی تک صیغہ راز میں ہیں۔ یہ تمام ایک کتاب کا تقاضہ کرتے ہیں، لیکن کالم میں صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ مثالی ریاست کی ایک جھلک سوات میں موجود رہی ہے جس کو دیکھنے والے آج بھی موجود ہیں۔