سیاست کا بھی کیا خوب زمانہ تھا ۔ ہمارے وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ تشریف لاتے تو ہم سکول کے بچے سڑک کے دونوں جانب قطار میں کھڑے ہو جاتے اور اپنے وزیر محترم کا استقبال کرتے۔ اکثر اوقات وزیر اعظم صاحب یا وزیر اعلیٰ صاحب بہت دیر سے آتے اور جب تک ہم اپنے اساتذہ کرام کی عزت کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے اور جب وزیر اعظم صاحب یا وزیر اعلیٰ صاحب تشریف لاتے تو اُن کی گاڑی فر فر ہمارے پاس سے گزر جاتی اور ہم دیکھتے رہ جاتے یا کبھی کبھی اُن کا خطاب ہمارے سکول کے باہر گراو¿نڈ میں جلسے کا اہتمام ہوتا تو بھی ہم سکول کے بچوں پر ہی آفت ٹوٹتی اس لئے کہ اس چھوٹے سے شہرمیں اتنے لوگ تو ہوتے نہیں تھے ا سلئے میلے کی رونق بڑھانے کے لئے ہم ہی باقی بچتے تھے۔ یوں ہم کو ایک دن کی بھوک پیاس برداشت کرنی پڑتی اور زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے بھی لگانے پڑتے۔ ایک خوشی بہر حال ہوتی کہ ہم سیاسی تقریریں سنتے اور جس طرح سیاسی لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں ہم یہ سب سنتے اور ہر بات پر ایک شخص ہم سے نعرے لگواتا‘ اُس وقت بات مسلم لیگ اور کانگریس کی ہی ہوتی تھی اس لئے پاکستان بننے کے بعد بھی جنرل ایوب کے دور تک مسئلہ مسلم لیگ اور کانگریس کا ہی ہوتا تھا۔ اس لئے اُن کو مسلم لیگ والے اپنے جلسوں میںخوب سناتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ دور بدلنے لگا اور کانگریس کے لوگ نئی جماعتوں میں آ گئے اور مسلم لیگ میں بھی عوامی مسلم لیگ بنی اور پھر خود سے مسلم والاحصہ ختم کر دیا اور صرف عوامی لیگ بن گئی۔ اسکے بعد تو مسلم لیگ کے دونوں دھڑے ایک دوسرے کی خوب خوب گت بناتے مگر ایک بات کی داد دینی پڑے گی کہ بہت زیادہ مخالفت کے باوجود کبھی ایک دوسرے کے خلاف بازاری زبان نہیں بولی گئی اور ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا کبھی بھی ایک دوسرے کی ذات پر حملے نہیں کئے گئے ‘اگر جلسے میں سکول کے بچے بھی شامل ہوتے ( جو اکثر ہوتے تھے ) تو سیاسی لیڈر اپنی بات میں بہت زیادہ احتیاط برتتے تھے تا کہ بچوں پر برا اثر نہ پڑے۔ ایک اور بات بھی قابل ِغور ہے کہ یہ وہ عرصہ تھا کہ جب سکولوں میں اور مساجد میںفارسی کا رواج عام تھا اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے اُس وقت سے ادب اٹھ گیا ہے کہ جب سے ہم نے فارسی کو دیس سے نکال دیا ہے۔ اب تو فارسی کا عمل دخل تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے یعنی وہ بزرگوں کے ادب اور چھوٹوں سے پیار والا سبق ہی ختم ہو گیا۔ تو اُس وقت کے سیاسی لیڈر بھی ایک دوسرے کااحترام اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اگرکوئی پھبتی کسی بھی جاتی تھی تو وہ بھی ادب کے دائرے سے باہر نہیںہوتی تھی۔ اسی طرح اگر کوئی سیاسی شخصیت سکول میں آتی تو وہ بھی ہمیں یہی تعلیم دیتی کہ یہ ملک جو حاصل کیا گیا ہے اس کو آپ بچوں نے ہی ترقی دینی ہے اس لئے پوری طرح محنت سے اپنی پڑھائی کرو ‘کبھی جھوٹ مت بولو‘ اور یہ بھی کہ بزرگوںکے ادب کا خیال رکھو۔ اس لئے کہ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب۔ یہ باتیں آج کی نسل کو عجیب لگتی ہوں گی اس لئے کہ جو لٹریچر ہمیں ادب سکھاتا تھا وہ ہمارے سلیبس سے ہی نکال دیا گیا ہے۔ ہمیں جو کچھ پڑھایا جاتا تھا اس میں تو ، تم ا ور آپ کا استعمال ہوتا تھا مگر اب باپ ہے تو بھی you ہے ‘بیٹا ہے تو بھی you ہے ۔ اب تو باپ کو بھی مسٹر فلاں کہنے کا رواج پڑتا جا رہا ہے۔کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور موبائل نے ادب میں بہت زیادہ تبدیلی لا چھوڑی ہے اور اب سیاسی لیڈر بھی کم کم ہی عوام کے سامنے آتے ہیں اور اپنی بات ٹویٹر کے ذریعے عوام تک پہنچاتے ہیں گو ان کی بات اسی فیصد عوام تک تو پہنچتی ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اسی فی صد سے زیادہ لوگ اس سہولت سے ہی محروم ہیں ‘ دیہات میں رہنے کے علاوہ شہر میں رہائش پذیر زیادہ تر افراد بھی ٹویٹراستعمال نہیں کرتے ۔ تاہم آئے روز وزرا ءاور معاونین کی جانب سے اس سہولت کا استعمال رہتا ہے اور اس میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اس کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے ۔ جو اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ بہتر جانتے ہیں کہ کس طرح ہماری نئی نسل زبان کے لحاظ سے باہنجھ ہوتی جا رہی ہے۔جو زبان ہمارے بڑے بڑے سیاسی لیڈر استعمال کررہے ہیں اس کا کیا کہا جا سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ جن لوگوں نے نئی نسل کو بنانا ہے وہ کس قدر بے احتیاطی سے کام لے رہے ہیں۔