فرانس کی اشتعال انگیزی اور عالمی امن

جس طرح ابھی تک دہشت گردی کی درست تشریح نہیں ہوسکی، اسی طرح توہین مذہب اور آزادی رائے کی بھی جان بوجھ کر عالمی سطح پر تشریح نہیں کی جا رہی ہے اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے کے دانستہ اقدام کیے جا تے ہیں. حالانکہ اسلام وہ واحد دین ہے، جس میں تمام انبیاءعلیہم السلام کی تکریم فرض ہے۔ یورپ میں ایک منظم طریقے سے کبھی کوئی کتاب اور توہین آمیز مواد چھاپ کر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے تو کبھی خاکے بنانے جیسی مذموم حرکات کی جاتی ہیں، اگر یہ کسی کا انفرادی فعل ہو تو حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ ملعون مذکور کو اشتعال پھیلانے کی سزا دی جائے، لیکن یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ایسی حرکت کے مرتکب افراد کے دفاع اور تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر مقتدر شخصیات میدان میں آ جاتی ہیں‘ کچھ عرصہ پہلے فرانس میں شائع ہونے والے ایک غیر معروف جریدے چارلی ہیبڈو نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کئے، اس پر کچھ مسلمانوں نے دفتر پر حملہ کیا اور پھر سارے یورپ کے حکمران چارلی ہیبڈو کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے پیرس میں جمع ہوئے. یہ یورپی قیادت کی اخلاقی پستی کی انتہا تھی‘ اس کے بعد تو ایسے شرپسندوں کو نیا حوصلہ مل گیا‘ حال ہی میں فرانس میں ہی دو واقعات میں توہین آمیز خاکے چھاپنے اور ایک پروفیسر کی طرف سے گستاخانہ تبصرے کرنے پر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، کچھ نوجوانوں نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا اور ایک طالب علم نے گستاخ استاد کو قتل کر دیا‘ اگرچہ حملہ آور گرفتار ہوگئے اور قاتل کو پولیس نے ماورائے عدالت قتل کر دیا لیکن اس کے باوجود فرانسیسی صدر نے گستاخی کے مرتکب افراد کی حمایت اور توہین آمیز خاکوں کے دفاع میں بولنا ضروری سمجھااور توہین آمیز خاکوں کی نمائش کا اہتمام کیا۔ یہ بات یورپ کی سیاسی قیادت کے اخلاقی اور ذہنی دیوالیہ پن کی مثال ہے‘ اس پر ترکی کے صدر طیب اردگان نے احتجاج کیا اور فرانسیسی صدر کو دماغ کا علاج کرانے کا مشورہ دیا‘ اس بات پر فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا کر یہ بات ثابت کر دی کہ ان کو اپنے صدر کے خلاف اتنی سی بات بھی قبول نہیں‘ مگر مسلمانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ اپنی جان سے عزیز ہستی کی توہین برداشت کر لیں‘وزیراعظم نے ایک خط میں فیس بک کے مالک سے مطالبہ کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کو ہولو کاسٹ کی طرح تبصروں سے پاک قرار دیں اور ان کی توہین پر مبنی مواد پر پابندی لگائی جائے‘ وزارت خارجہ میں فرانس کے سفیر کو طلب کرکے باضابطہ احتجاج کیا گیا۔ پاکستان میں نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس، بلکہ تمام انبیاءو مرسلین علیہم السلام کی توہین کرنا قانونا سنگین جرم ہے‘ یورپ میں حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالے سے فلمیں بنائی جاتی ہیں، لیکن ان کی پاکستان میں نمائش ممکن نہیں، ایسے قوانین بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے فروغ کا باعث ہوتے ہیں‘ لیکن یورپ میں جس طرح حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے یہ عالمی امن کو داو¿ پر لگانے کے مترادف ہے۔