اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے درجہ چہارم اور درجہ سوئم ملازمین نے امسال کم از کم تین چار مرتبہ کام چھوڑ او رقلم چھوڑ ہڑتال کر لی اور اتنی ہی مرتبہ انتظامیہ سے افہام و تفہیم پر راضی ہوگئے۔ آئندہ کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اس طرح جب پشاور یونیورسٹی کے تمام نان ٹیچنگ سٹاف نے ایڈمن بلاک میںہائے جمالو برپا کیا تو انتظامیہ نے مجبوراً تین کروڑ سے زائد کا قرضہ لیکر تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کردی۔ مگر مسئلہ یہاں پر ختم نہیں ہوا کیونکہ تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی تو ہر مہینے واجب الادا ہوا کرتی ہے اور انتظامیہ کے مطابق خزانہ خالی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ جامعہ کی مالی بد حالی کا تماشہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ خالی خزانے کی بات حسب روایت اور حسب عادت ہے ورنہ یونیورسٹی کے بینک اکاﺅنٹس بھرے پڑے ہیں ، ایسے میں درمیان والی بات یہ ہے کہ اگر اکاﺅنٹس بھرے ہوئے ہوتے توقرضہ لینے کی نوبت کیونکر آتی ۔ ابتری کے اس عالم میں جب یونیورسٹی کے سینکڑوں عارضی یا کنٹریکٹ ملازمین کے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہوئی تو جامعہ کی انتظامیہ نے ازراہ مجبوری ان تمام کوالوداع کہہ دیا ،مگر وہ کہاں جانے والے تھے بلکہ یار لوگوں نے دھرنے کاآغاز کردیا جو کہ نئے پاکستان میں نئی روایت ہے ۔ ا ب حالت یہ ہے کہ فارغ کنٹریکٹ ملازمین سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ صبح سے دوپہر تک کبھی ایڈمن کے سبزہ زار اور کبھی مین دفاتر کی سیڑھیوں میں دھرنا سیریز چلا رہے ہیں۔اس دوران اکثر جذباتی ہوکر یونیورسٹی میںروڈ نمبر 2پر نکل کر انجینئرنگ چوک اور وائس چانسلر چوک کو بھی بلاک کر دیتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہمارے کنٹریکٹ کی تجدید کرلیں اور گزشتہ تین چار مہینوں کی تنخواہیں بھی ادا کر دیں۔ دوسری جانب انتظامیہ کا موقف ہے کہ ہمارے پاس کوئی ٹکہ پیسہ نہیں ۔یعنی مستقل ملازمین کو تنخواہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں تو آپ کو کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ جب آپ لوگ عدالت میں چلے گئے ہیں تو پھر شور شرابے اور واویلا کی کیا ضرورت ہے بلکہ عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔کنٹریکٹ کے ساتھ مستقل کلاس فور بھی ایک آدھ دن دکھاوے کی حد تک ایکا کرلیا مگر حالات جوں کے توں رہے۔ عارضی کلاس فور اور مستقل کلاس فور کیساتھ ساتھ کلاس تھری غیر مطمئن نظر آرہے ہیں۔یار لوگوں نے گزشتہ دنوں آٹھ مطالبات پر مشتمل ڈیمانڈ نوٹس جاری کیا جبکہ گزشتہ ہفتے مطالبات میں دو کااضافہ کرکے دس مطالبات پر مشتمل ڈیمانڈ نوٹس انتظامیہ کے سامنے رکھ دیا اور ساتھ ہی ایک ہفتے کی ڈیڈلائن بھی دے دی۔ اس ناگفتہ بہہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جامعات کی حالت سدھرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ درحقیقت گزشتہ ادوا ر میں انتظامیہ کا ہاتھ ڈھیلا رکھنے ، سیاسی مداخلت اور موجودہ دورمیں بدترین مہنگائی کے باوجود تعلیمی بجٹ اور جامعات کے اخراجات جاریہ کی گرانٹ میں کمی اس صورتحال کی بنیادی وجوہات ہیں حکومت کے اس موقف کی تحقیقات اور اسے پبلک کرنا بھی ازخود ضروری ہے کہ جامعات میں نظم و ضبط‘ میرٹ کی پاسداری اور مالی شفافیت کا فقدان ہے اگر حکومت کا موقف بجا ہو تو تحقیقات کرکے جامعات کا قبلہ درست کرنا کوئی مشکل کام نہیں جامعہ کی ہیجان خیزی کی اس لہر میں ایک نیا اضافہ اس وقت سامنے آیا جب پیوٹا نے جنرل باڈی اجلاس میںانتظامیہ کے سامنے لکیر کھینچی ہے کہ جب تک گزشتہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سپروائزر اور مقامی اور غیر ملکی ایگزامینروں کے معاوضوں کے بقایا جات ادا نہ ہوں تب تک اساتذہ نئے سیشن کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلے نہیں ہونے دینگے اس حالت کو دیکھتے ہوئے اگرنا امیدی کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تب بھی یہ توقع لاحاصل معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور تعلیم بہتری کی جانب گامزن ہوگی کیونکہ یہ حکومتی ترجیحات سے باہر ہے جامعات کے انتظامی مالی اور تدریسی معاملات کا احتساب اور اس کیلئے ذرائع آمدن پیدا کرکے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا کوئی ناممکن کام نہیں مگر یہ تب ہوگا جب حکومت تعلیم کو اپنی ترجیحات میں اولیت دے کر اصلاح احوال اور تعمیری تبدیلی کے لئے آگے آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کو اولین ترجیح قرار دینے کے سواہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ۔ یہ تعلیم ہی ہے جس کوترقی دے کر ہم ہر شعبہ زندگی میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور ہماری پسماندگی اور دنیا کے دیگر ممالک سے پیچھے رہنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے تعلیم کو کبھی اولین ترجیح نہیں سمجھا اور ا س کو ملکی بجٹ میں دیگر شعبوں کے مقابلے میں ہمیشہ نظر انداز کئے رکھاجس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں کہ زندگی کا کوئی شعبہ خاطر خواہ نتائج نہیں دے رہا۔