پشاور کی ایک مسجد میں درس کے دوران بم دھماکہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والا جانی نقصان ایک قومی المیہ ہے، چند دن پہلے خفیہ ایجنسی نے کوئٹہ اور پشاور میں ممکنہ دہشت گردی کی اطلاع دی تھی اور دونوں صوبائی دارالحکومتوں میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی تھی ‘لیکن ہمیشہ کی طرح وہ مقامات جہاں عام لوگ آتے جاتے ہوں، وہ بازار ہو یا تعلیمی ادارے، مسجد ہو یا سبزی منڈی، یہ دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف رہ جاتے ہیں اور ایسا ہی ہوا پہلے کوئٹہ میں ایک دھماکہ ہو گیا اور پھر پشاور کی مسجد میں۔اس دھماکے سے ایک دن پہلے وزیراعظم نے افغانستان کے پارلیمانی وفد کی موجودگی میں ایک تقریب کے دوران ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ بھارت افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کروا کر بے چینی پھیلا سکتا ہے اور یہ بھی اتفاق ہی ہوسکتا ہے کہ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے بھارت سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا اعلان کیا تھا‘ بھارت کے لیے ہمسایہ ممالک کے اندر دہشت گردی کرنا زیادہ مشکل نہیں اور اس کام کا وہ بہت وسیع تجربہ رکھتا ہے‘ پاکستان 1970 سے بھارتی دہشت گردی کا نشانہ ہے اور سری لنکا نے بھی بیس سال سے زیادہ عرصہ اس ہمسائیگی کا دکھ جھیلا ہے‘ اب بھارت چین اور پاکستان کے خلاف اعلانیہ دشمنی کر رہا ہے اگرچہ وہ سرحدوں پر کسی پیش قدمی کی جرات نہیں کرتا، البتہ مقبوضہ کشمیر کے اندر اور لائن آف کنٹرول کے قریب آزاد کشمیر کے دیہات پر دہشت گردی کرتا رہتا ہے ۔کسی وقت وطن عزیز میں دہشت گردی کی لہر چل پڑی تھی اس دوران 16 دسمبر کو پشاور آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملہ ہوگیا۔ اس کے بعد عسکری قیادت نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا اس طویل اور مشکل آپریشن میں سینکڑوں جانوں کا نذرانہ دے کر قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانے تباہ کیے گئے، اس آپریشن میں ہزاروں قبائلی بھی متاثر ہوئے لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں وہاں امن قائم ہوگیا جب دہشتگرد بھاگ رہے تھے یا زیر زمین چلے گئے تھے تو بھارت نے ایک دوسری دہشتگردی شروع کر دی جس کو ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار بھی کہا جاتا ہے اور یہ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کی مسلح افواج کو بد نام کرنا ہے۔ لیکن اب آگ و بارود کے ذریعے دہشت گردی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے یہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام کےلئے پاکستان کی کوششیں کامیابی کے قریب ہیں دو ہفتے پہلے افغان رہنماعبداللہ عبداللہ اسلام آباد آئے تھے، اس کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں. ان دنوں افغانستان کا اعلی سطحی پارلیمانی وفد اسلام آباد میں ہے یہ سب افغانستان کے پرامن مستقبل کے لئے کوششوں کا حصہ ہے اور طویل عرصہ کے بعد افغان قیادت بھارت کے فکری تسلط سے آزاد ہوکر سوچ رہی ہے، جو بھارت کے لیے ناقابل برداشت ہے گزشتہ ہفتے جلال آباد میں پاکستان کا ویزا لینے والوں کی بھگدڑ میں کئی جانیں ضائع ہو گئی تھیں اس افسوسناک واقعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اب بھی افغانوں کی بڑی تعداد پاکستان آنے اور یہاں کام، کاروبار، علاج یا تعلیم کے لئے تیار ہے یہ اعتماد کی علامت ہے بھارت کی کوشش ہے کہ بھائی چارے کی فضا آگ اور خون سے آلودہ ہو جائے اس لیے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں ایک بار پھر دھماکوں سے شروع کرا دئیے ہیں ۔ دہشت گردوں کی کوشش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلے بڑھائے جائیں تاکہ ان کو دونوں ممالک میں اپنی تخریب کاری کے کام کوں انجام تک پہنچانے میں آسانی ہو۔ بھارت جو کہ بظاہر افغانستان کی دوستی کادم بھرتا ہے اندر سے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ایک طرف اگر پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے تو دوسری طرف وہ افغانستان کو بھی مختاج اور کمزور رکھنا چاہتا ہے اور پھر معاشی امداد کی آڑ میں اپنی ہمددری جتا کر ان کی ہمددریاں جیتنے کی کوشش کرتا ہے تاہم اب افغانستان کے عوام اس چال کو سمجھ گئے ہیں اور وہ پاکستان کے قریب آتے ہوئے ماضی کی غلط فہمیوں اور اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اہم ترین افغان رہنماﺅں کے دورے اس بات کا ثبوت ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان جس نے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار ہے ۔اس وقت ملک میں سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر مقابلہ کیا جائے اور پاکستان کے دشمنوں کی سازش ناکام بنائے اپوزیشن بھی سیاسی جنگ سیاست تک ہی رکھے، اداروں کی بجائے صرف حکومت کو ہدف بنائے ۔کیونکہ سیاست تب تک رہے گی جب تک ملک سلامت ہے اگر ملکی سلامتی کو ہی خطرہ لاحق ہوجائے تو پھر کہاں کی سیاست اور کیسی سیاست۔ اس نکتے کو اب سمجھنا ہوگا کہ وطن عزیز اس وقت ہنگامہ خیز اور تخریبی سیاست کا متحمل نہیںہوسکتا بلکہ تعمیری سیاست اور باہمی اتفاق و اتحاد کامظاہرہ کرنا ہوگا۔ جس طرح قیام پاکستان کیلئے ہمارے اباﺅ اجداد نے تکالیف اٹھائیں اور مل جل کر ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا اسی طرح اب ہمیں بھی باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مشکل کو آسان بنانا ہوگا۔