میں پہلی مرتبہ جب سعودی عرب گیا تو یوں جانئے اپنے بڑے بیٹے سلجوق کی پہلی غیر ملکی پوسٹنگ کی طفیل گیا‘وہ ایک سفارتکار کے طورپر جدہ کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ہوا تونہ صرف میں بلکہ میری بیگم بھی چند دنوں میں اس کیلئے اداس ہوگئے کہ اس سے پیشتر وہ ہم سے کبھی یوں مسلسل دور نہ ہوا تھا...ظاہر ہے اگر ہم دونوں کشاں کشاں سعودی عرب گئے تو صرف اپنے بیٹے کی محبت میں ہی نہ گئے بلکہ اللہ کے گھر حاضری دینے اور جسکی چاہت میں ہم بندھے ہوئے تھے اپنے محبوب کے شہر مدینے کو اپنی آنکھوں میں سجا لینے کیلئے بھی گئے اور کسی بھی آنکھ کیلئے اس سے بڑھ کر سنگھار کیا ہوگا‘ سجاوٹ کیا ہوگی کہ اس میں سبز گنبد کے نقش سج جائیں‘ مدینے کی گلیوں کی دھول کا ایک ذرہ خاک شفا ہو جائے... ہم نے وہ لطف اٹھائے کہ جی جانتا ہے... ہم واپس جدہ آئے تو کچھ دن تو اک خمار میں رہے...دل ڈھونڈھتا تھا وہی فرصت کے رات دن کہ حرم کعبہ میں پڑے رہیں‘ مدینے کی گلیوں میں گھومتے رہیں‘ تصور جاناں کئے ہوئے‘ اور یہ جاناں تو جان جاناں ہے‘ نہ صرف پہلی بار بلکہ ہر بار جب میںنے مدینے میں قدم رکھا تو ہمیشہ محسوس ہوا کہ وہ محبوب خوش آمدید کہتا ہے‘ اجازت دیتا ہے کہ چلے آﺅ‘ اسکے مہمان ہو جانے میں بھی کیسے لطف ہیں‘ ایسے کہ بس جی جانتا ہے... اور پھر چند روز بعد ہمیں ہوش آیا تو وہی مصرعہ یاد آیا کہ... بے ہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا... ہم جدہ شہر کے معمولات کے عادی ہونے لگے پر عادت ہوتی نہ تھی اسلئے کہ پاکستان کی نسبت یہاں کے موسم اور اخلاقیات کے پیمانے الگ تھے... بہت کچھ قابل ستائش تھا‘ قانون کی بے رحم عملداری‘ جرائم نہ ہونے کے برابر‘ گھر بے قفل چھوڑ جایئے‘ کاروبار کھلے چھوڑ جایئے یہاں تک کہ کسی پارک میں کوئی قیمتی گھڑی بھول جایئے‘ واپس آیئے تو جوں کاتوں ہوگا‘ گھڑی وہیں ہوگی‘ باندھ کر چلے جایئے‘ نماز کے اوقات میں سٹوروں‘ دکانوں اور کاروباری مراکز کے شٹر گر جاتے ہیں‘ انکے اندر جو لوگ ہیں وہ نماز ادا کرتے ہیں اگرچہ کچھ آئس کریمیں کھاتے رہتے ہیں اور پھر وہ شٹر اٹھ جاتے ہیں اور زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے‘ مجھے یاد ہے حج کا فریضہ اداکرنے کے بعد پاکستان واپسی ہوئی تو میری بیگم نے کہا کہ آپ وہاں تو باقاعدگی سے نماز پڑھتے تھے‘ یہاں آئے ہو تو بے قاعدہ ہونے لگے ہو تو میں نے کہامونا بیگم‘ وہاں نماز کی ادائیگی میں سہولت بہت ہے... کچھ تردد نہیں کرناپڑتا صرف فرض بھی پڑھ لو تو قبول‘ یہاں تردد بہت کرناپڑتا ہے...سعودی معاشرے کے قابل ستائش پہلو بہت ہیں لیکن... ایک میرے جیسے آزاد منش پاکستانی کیلئے وہاں کے رہن سہن میں ایک غیر قدرتی پن ہے جو آزار دیتا ہے زندگی کے بارے میں ایک... میرے نزدیک ابنارمل رویہ ہے جسکے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘ اسلئے بھی کہ میں کسی حد تک ایک نارمل پاکستانی معاشرے کا فرد ہوں وہاں نہ عورتیں نظرآتی ہیں نہ بچے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں‘ نہ کوئی سینما گھر‘ نہ تفریح کا کوئی سامان... ایک سناٹا ہے جس میں صرف بڑی بڑی کروڑوں روپوں کی گاڑیاں شائیں شائیں کرتی چلی جاتی ہیں... شاہراہوں اور پارکوں میں آج کے عہد کے پاکستانی اور بنگلہ دیشی غلام جھاڑو دے رہے ہیں اور کبھی کبھار کسی لینڈ کروزر میں سے ایک ہاتھ برآمد ہوتا ہے اور چند ریال اچھال دیتا ہے اور وہ اپنے جھاڑو فراموش کرکے ان پر جھپٹ پڑتے ہیں اور دیر تک اپنے مالکوں کی دریا دلی کے اعتراف میں جھکے رہتے ہیں‘ ‘پاکستانی سفارتخانے میں جتنے بھی غیر ملکی اور ملکی اخبار آتے... آدھے سے زیادہ خالی ہوتے‘ سنسر شدہ ہوتے...مجھے یاد ہے کہ ان میں ٹینس کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی جو تصویرےں شائع ہوتیں‘ ان پر کالک پھری ہوتی کہ وہ تو مرد یاعورتیں ہوں کھیل کیلئے نیکر ہی پہنتے تھے‘کسی ریستوران میں جاتے‘ چاہے وہ میکڈونلڈ ہو... میری بیگم اور بہو ہم سے الگ ہو کر زنانے میں بٹھا دی جاتیں اور ہم دونوں باپ بیٹا مردانے میں الگ کر دیئے جاتے خواتین کیلئے لازم تھا کہ وہ ایک سیاہ عبایا میں روپوش سر سے پاﺅں تک ڈھکی ہوں اگر انکے بال نظر آئیں توپولیس انہیں چھڑیوںسے زدوکوب کرسکتی ہے ... شہر ریاض میں آباد کچھ مجھ سے محبت کرنیوالے پاکستانیوں نے خصوصی طور پر مجھے تقریبات کیلئے مدعو کیا اور ریاض کے پاکستانی بہت متمول اور زندگی سے لطف اٹھانے والے لوگ ہیں ائرپورٹ پر ہمارے استقبال کیلئے بہت لوگ آئے ایک بہت مہربان میاں بیوی ریاض میں ہمارے میزبان تھے... تو بیوی صاحبہ نے میری بیوی صاحبہ سے کہا کہ بیگم صاحبہ... ذرا اپنا لباس بدل لیجئے میں آپ کیلئے ایک فرانسیسی فیشن ہاﺅس کا ڈیزائن کردہ عبایا لے کر آئی ہوں‘ اسے پہن لیجئے تو اس نے اپنی میزبان سے کہاکہ میں ایک حیا دار لباس میں ہوں‘ شلوار قمیض میں چادر اوڑھے ہوئے ہوں تو وہ شہر ریاض میں پورے تین روز شلوار قمیض اور چادر میں دندناتی پھری... میرا خیال ہے کہ شرطہ حضرات نے اسے پاگل جانا اور جانے دیا اور اگر وہ اسے روکتے تو وہ انکا بھی وہی حشر کرتی جو وہ میرا کرتی آئی ہے۔