کورونا نے ایسا اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے کہ ہر قسم کی سیاسی اور دیگر سرگرمیوں پر پانی پھر گیا۔ اچھا بھلاہمارے ملک میں سیاسی لوگوں کی سرزنش کا دور چل رہا تھا کہ اس کورونا نے اس کی رونقیں بھی ماند کر دیں۔جب نیب نے احتسابی مہم تیز کر رکھی تھی تو سیاسی لوگوں نے ایک اور طرف توجہ دینی شروع کر دی ۔ ادھر امریکہ میں صدارتی انتخابات کی ہوا چلی تو ادھر ہم نے بھی اسی طرف چل نکلنے میں اپنی بچت کی راہ تلاش کرنے میں عافیت سمجھی اور جن سیاست دانوں کے ہر دوسرے دن حاضریوں کا سلسلہ چل پڑا تھاانہوں نے خود کو سیاسی جلسوںمیں مصروف کر کے حاضریوںسے پناہ ڈھونڈ لی۔ ایک جلسہ گجرانوالہ میں ہوا ۔یہ حزبِ اختلاف کی طرف سے جلسوںکی بارش کا پہلا قطرہ تھا ۔ اس میں کتنی کامیابی ہوئی اور کتنی ناکامی ہوئی اس کے متعلق رائیں مختلف ہیں۔ کسی کی نظر میں یہ کامیاب ترین جلسہ تھا اور کوئی کہہ رہاہے کہ یہ با لکل ہی ناکام جلسہ تھا، ویسے بھی ابھی تک کورونا کا خوف قائم ہے اس لئے جلسوں جلوسوں میں لوگ ذرا کم ہی دلچسپی لیتے ہیں اس لئے کہ ایک دو نعروں کےلئے کون کورونا کو گلے لگانے کی رسک لے سکتا ہے۔ ادھر حکومتی اراکین کی طرف سے بھی کچھ کچھ جلسوں کی طرف قدم اٹھائے جا رہے ہیں ۔ حزب اختلاف نے ایک جلسہ کراچی میں بھی کیا مگر عمران خان کے جلسے کی کیا بات ہے۔ وہ بھی ایسے میں کہ کراچی میں تحریک انصاف کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی او ر یہاں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا اور ایسے میں عمران خان نے ایک بہت بڑا جلسہ کیا تھا ۔ ایک تحریک انصاف کا جلسہ موجودہ گیارہ جماعتوں کے جلسے سے بڑا جلسہ تھا۔ شاید اُس وقت عوام اُس وقت کی حکومت سے تنگ بھی تھے اور عمران خان کا ایک اپنا جادو بھی تھا۔ تا ہم عمران خان کا جلسہ واقعی ایک بہت بڑا جلسہ تھا جس کی ا یم کیو ایم کی موجودگی میں توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر ہوا ۔ اب کے جو جلسہ حزب اختلا ف کی گیارہ جماعتوں نے کیا اور اگر عمران خان کی حزب اختلاف کے جلسے سے موازنہ کیا جائے تو نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اس لئے کہ تحریک انصاف ایک جماعت تھی اور کراچی میںبادشاہت ایم کیو ایم کی تھی ایسے میں اتنابڑا جلسہ کرنا اور اسکے مقابلے میںگیارہ جماعتوں کا جلسہ کہ جب ایم کیو ایم کا زور بھی ٹوٹ چکا ہے اور کراچی میں حکومت بھی پی پی پی کی ہے اور اس میں کراچی جیسے شہر میں کہ جہاں معمولی واقعے پراچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہے ، تیسرا جلسہ کوئٹہ میں ہوا جسے کراچی کی نسبت زیادہ کامیاب کہا جاسکتا ہے ۔ ادھر حکومت بھی اور وزارت صحت بھی بار بار متنبہ کر رہی ہے کہ کورونا ان جلسوں کی وجہ سے اپنا زور زیادہ بھی کر سکتا ہے اس لئے فی الحال ان جلسوں سے پرہیز ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ گجرانوالہ اورکراچی اور پھر کوئٹہ کے جلسوں کے بعد اگر دیکھا جائے تو واقعی کورونا کے واقعات میںاضافہ دکھائی دیتا ہے ۔ کہاں کہ کورونا کے ہاتھوں اموات کی تعداد گر کر ایک دو تک پہنچ گئی تھی کہ کہاں اب دس بارہ تک پہنچ چکی ہے۔ اور اس میں روز بروز اضافہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ صرف پاکستان میںہی نہیں پوری دنیا میں ایک دفعہ پھر سے کورونانے زورپکڑلیا ہے اور اب تو امریکہ ، سپین ‘جرمنی اور اٹلی پھر سے کورونا کی زد میں آ گئے ہیں اور ایشیا ءمیں بھی جہا ں جہاں کو رونا نے اپناہاتھ ہولا کر دیا تھا وہاں وہاں پھرسے اموات میں اور کورونا کیسز میں بہت زیادہ اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ حزب اختلاف کے مزید جلسوں کاپروگرام بھی ہے تاہم ان حالات میں اگر جلسے جلوسوں کو ایک طرف رکھا دیا جائے تو بہتر ہوگا اور ایسے حالات میں کہ جب عوام کو اپنا پیغام پہنچانے کے جدید سے جدید ذرائع سامنے آگئے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل پر خطاب کے ذریعے بڑے بڑے جلسوں سے زیادہ موثر انداز میں پیغام پہنچایا جا سکتا ہے ۔سیاست اپنی جگہ تاہم کورونا والی بات تو سب کے سامنے ہے اللہ کرے کہ عوام اس بلا سے محفوظ رہیں مگر احتیاط بہت ضروری ہے۔