فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کو دو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ سابقہ فاٹا کے عوام کی محرومی دور ہوگئی ہے، اور اب ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح آئینی حقوق حاصل کر چکے ہیں، لیکن اصل صورتحال اب بھی زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔ اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ایسے ہوا کہ ایک ایسے ڈاکٹر کو نوکری دینے سے انکار کردیاگیا، جس نے مطلوبہ پوسٹ کےلئے کا امتحان پاس کر لیا‘ مگر بدقسمتی سے اس کے پاس ڈومیسائل فاٹا (باجوڑ) کا تھا، جبکہ یہ پوسٹ صوبہ خیبر پختونخواہ کے کوٹے کی ہے، حالانکہ فاٹا انضمام کے بعد سابقہ فاٹا کے دیگر معاملات کی طرح ڈومیسائل بھی خیبرپختونخوا کے ہی تصور ہوتے ہیں۔جس وقت ڈاکٹر مذکور نے ڈومیسائل بنوایا، اس وقت فاٹا کی حیثیت الگ تھی، مگر اب وہ صوبے کا حصہ ہے تو وہاں کے تمام حاملینِ ڈومیسائل بھی صوبائی کوٹہ کا حصہ ہی بن گئے ہیں، جبکہ متعلقہ حکام یہ سیدھی سی بات قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ڈاکٹرکا تعلق باجوڑ سے ہے‘انہوں نے نیوروسرجری میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے اور اس وقت ان کا شمار ملک کے چند ماہر نیوروسرجنز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کے بڑے ہسپتال (پمز) میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے لیے اپلائی کیا تھا اور امتحان میں ٹاپ کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ تکنیکی طور پر سلیکٹ ہو گئے، لیکن ان کے پاس فاٹا کا ڈومیسائل ہونا نا اہلی بن گیا۔ کچھ دوست احباب نے ڈاکٹر کو مشورہ دیا کہ چپکے سے دوسرا ڈومیسائل بنوا کر اپنا مسئلہ حل کر لیں، لیکن انہوں نے اصولی بات اور فاٹا کے سینکڑوں ڈومیسائل ہولڈرز کے لیے اپنے موقف کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا، اس بات کا فاٹا سے سینیٹر ہدایت اللہ خان نے بھی نوٹس لیا اور یہ معاملہ سینٹ کی متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی میں اٹھایا، کیونکہ یہ کسی ایک شخص یا امیدوار کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ سب جوانوں کا ہے جن کے پاس فاٹا کا ڈومیسائل ہے اور فاٹا کے صوبے کے ساتھ انضمام کے باوجود ان کو صوبائی کوٹے میں شمار نہیں کیا جا رہا‘ سینیٹ کمیٹی میں سینیٹر ہدایات اللہ کے موقف کی دیگر ساتھی سینیٹرز کے علاوہ وفاقی وزیر علی محمد خان نے بھی حمایت کی‘ وزارت قانون اوراسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ فاٹا ڈومیسائل کے حاملین کے پی کے کوٹے پر اپلائی کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود عمل کرنے کو تیار نہیں سابقہ فاٹا ایک حساس علاقہ ہے، صوبے میں ضم کرنے کا مقصد وہاں کے شہریوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ ملک کی دیگر شہریوں کی طرح تمام حقوق رکھتے ہیں، مگر اب تک صوبائی حکومت کے ساتھ بھی مسائل موجود ہیں، جب کہ وفاق میں عملی طور پر سابقہ فاٹا کو صوبے کا حصہ نہیں سمجھا جا رہا، اس امتیازی سلوک کے خلاف سینیٹر ہدایت اللہ نے سینیٹ سے واک آو¿ٹ بھی کیا۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو فاٹا کے ڈومیسائل کو صوبائی کوٹہ میں شامل کرنے سے انکار کرنا، آئین کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مستقل سکونتی ڈومیسائل کو پنجاب کے کوٹے میں شمار کیا جاتا ہے، اسلام آباد کے ڈومیسائل حاملین کو پنجاب کے کوٹے سے نوکری مل جاتی ہے۔ اسی طرح فاٹا اگر صوبے کے پی کا آئینی طور پر حصہ بن گیا، تو انکار یا ہچکچاہٹ کی سمجھ نہیں آتی، اور یہ مسئلہ ایک امیدوار کا نہیں بلکہ ہزاروں جوانوں کا ہے۔ اس کو ہر حال میں حل ہونا چاہئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سابقہ فاٹاکا ڈومیسائل رکھنے والے افراد کو اس حوالے سے سہولت دی جائے اور جہاں بھی وہ اپلائی کریں تو ان کو خیبرپختونخوا کے کوٹے میں ہی شمار کیا جائے اب وقت آگیا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کو جلد از جلد دیگر علاقوں کے برابر لانے اور وہاں پر ترقی کا سفر تیز کیا جائے۔