ایک دوسرے کے مذہب اور مخصوص مقامات کا احترام کرکے ہی ایک معاشرے میں رواداری اور برداشت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ان دنوں جو عالمی منظر نامے پر فرانس کے حوالے سے معاملہ گرم ہے اس کی بڑی وجہ یہی عدم رواداری ہے جسے اظہار رائے کا نام دیا گیا ہے۔ہمیں متحدہ ہندوستا ن کے آخری دن کچھ کچھ یاد ہیں ۔ ہمارے گاو¿ں میں ہندووں کے دو خاندان تھے جب کہ ہمارے ساتھ والے گاو¿ں میں ہندووںکا ایک پورا محلہ تھا اور اُس گاو¿ ں میں اُن کا مندر بھی تھا ۔ مندر اور مسجد بالکل ساتھ ساتھ تھے درمیان میں صرف ایک چھ فٹ کی گلی تھی۔ ہندووں کا ایک کنواں بھی تھا جو آج بھی ہے اور مندر البتہ رہائشی گھر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ہمارے گاو¿ں میں ان ہندووں کی دو دکانیں تھیں اور دوسرے گاو¿ں میں البتہ سارا کاروبار ہندﺅں ہی کے ہاتھ میں تھا ۔ہمارے گاو¿ں میں ایک دکا ن مسلمانوں کی بھی تھی۔ ہندوو¿ں کے تہواروں کا تو ہم نہیں جانتے اسلئے کہ ہمارے شعور سے پہلے کی بات ہے البتہ اُن کی ایک آدھ شادی اور اُس پر بینڈ باجہ ہمیں یاد پڑتا ہے۔ اور اس بینڈ باجے کی جو ایک بات اب بھی ہمارے ذہن میں ہے وہ یہ کہ جب یہ بینڈ باجے والے مسلمانوں کے قبرستان کے قریب سے گزرتے تھے تو بینڈ بجانا بند کر دیتے تھے۔ اور جب مسجد کے قریب سے بھی گزرتے تھے تو بھی بینڈبجانا بند کر دیتے تھے ۔ یہ رواج ایک مدت تک پاکستان بننے کے بعدبھی ہم نے دیکھا کہ جب بھی ہمارے ہاں کوئی شادی ہوتی جس میں ڈھول باجے کا استعمال ہوتا تو یہی ہوتا کہ جب ڈھول والے قبرستان کے قریب سے گزرتے تو اُس وقت تک ڈھول نہیں بجاتے تھے جب تک کہ وہ قبرستان کی حدود سے نکل نہ جاتے اسی طرح مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ڈھول بجانا بند کر دیتے تھے۔ اورجب تک مسجد سے کافی دور نہ ہو جاتے ڈھول نہیںبجاتے تھے۔ اسی طرح مجھے یاد ہے کہ جب تحریک پاکستان کے دوران ‘پاکستان کے حق میں جلوس نکلا کرتے تھے تو وہ بھی قبرستان کی حدود سے خاموشی سے گزرا کرتے تھے۔ اس لئے قیام پاکستان اور تحریک پاکستا ن سے قبل یہاں پر کبھی ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان فسادت نہیں ہوئے نہ ہی ایک دوسرے کے متعلقہ مقامات پر حملے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دوسروں کی دل آزادی کی آزادی ہو ۔اس ضمن میں فرانس کی حکومت کے حامی ممالک بھی چند ہیں تاہم زیادہ تر ممالک نے فرانس کے صدر کے روئیے کو ناپسند کیا ہے ان میں کینیڈا کے وزیر اعظم قابل ذکر ہیں جنہوںنے اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی حدود کے بغیر نہیں ہونی چاہئے اور اس سے مخصوص برادریوں کی جب دل چاہے اور بلاوجہ دل آزاری نہیں ہونی چاہیے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی فرانسیسی جریدے میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکے دکھانے کے حق کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ آزدی اظہار بغیر حدود کے نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دوسروں سے عزت سے پیش آئیں اور معاشرے اور اس دنیا میں موجود دوسرے لوگوں کی جب دل چاہے اور بلاوجہ دل آزادی نہ کریں فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کے موقف سے اپنے آپ کو الگ کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ’آزادی اظہار کا احتیاط سے استعمال ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ’ہمارے جیسے متنوع اور مختلف نسل کے لوگوں کے حامل معاشرے میں ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے الفاظ اور ہمارے افعال کا دوسرے پر کیا اثر پڑے گا‘ بالخصوص ان لوگوں اور برادریوں پر جو پہلے ہی سے بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو فرانس کے صدر نے ناز ک حالات میں ایک نامناسب طرز عمل اپنایا جا کا نقصان خود فرانس کو ہوگا۔