سیاست کی نئی چالیں

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1990 کی دہائی کی سیاست واپس لوٹ آئی ہے ، جب سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلئے اوچھے ہتھکنڈوں اور استعمال کرتے اور برے الزامات لگاتے تھے، لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو اب بات سیاسی الزامات سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، سیاست کے لیے ریاست کے مفادات بھی داو¿ پر لگائے جارہے ہیں۔ سابق سپیکر ایاز صادق کا بطور سپیکر کردار جیسا بھی تھا لیکن اپوزیشن سیاست میں وہ پی ڈی ایم کے قیام کے بعد متحرک ہوئے۔ پہلے شہباز شریف کی از خود گرفتاری پر ان کے بیان پر بھی کافی لے دی ہوئی تاہم قومی اسمبلی میں انہوں نے جو بیان دیا ہے، وہ کسی طور سنجیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کو بزدل کہنے کےلئے کئی جواز ہو سکتے ہیں، لیکن ایک ایسے معاملے میں جہاں پاکستان کی مسلح افواج، بالخصوص فضائیہ نے بہادری سے بھارت کو اعلانیہ مات دی تھی، اسے سیاست کی نذر کرناتو صرف بھارت کو ہی خوش کر سکتا ہے اور اب اس بیان پر مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم میں بھی تحفظات ظاہر ہورہے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی وزراءبھی اس پر ردعمل دیتے ہوئے محتاط نہیں رہے، اگر حکومت میں کسی سطح پر اپوزیشن رہنماو¿ں پر غداری کے مقدمات بنانے پر غور ہو رہا ہے، تو یہ بھی کسی طور عقلمندی کا تقاضہ نہیں ہے ، اس سے مزید عدم برداشت پھیلنے کا خطرہ ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے سیاسی جواب ہی درست فیصلہ ہوگا۔ میاں نواز شریف جس طرح اچانک متحرک ہوئے ہیں اور اپنی سیاست کے سارے پتے کھیلنے پر تیار ہیں، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہوچکے ہیں جس کےلئے وہ ہر طریقہ آزما رہے ہیں۔ چھ ماہ پہلے تک وہ کسی نہ کسی طرف سے مفاہمت کی امید کر رہے تھے، لیکن یہ بات وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اب 1990 نہیں اور نہ ہی جوڑ توڑ آسان ہے۔ وہ جس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیںتو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی کچھ توقعات پوری نہیں ہوئی اور یہ بات مسلم لیگی بھی سمجھ رہے ہیں۔ شہباز شریف کو بھی جس طرح لندن سے واپس بھیج کر گرفتار کرایا گیا، یہ بھی اتنی خفیہ بات نہیں، اب نون لیگ میں مریم نواز کا راستہ صاف ہوگیا ہے، شہباز شریف اور حمزہ شہباز اب اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑیں گے، کہا جا رہا ہے کہ ماضی کو دہراتے ہوئے ایک نئی مسلم لیگ کی تیاری بھی ہو رہی ہے‘ شیخ رشید بھی ایسی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، لیکن شاید اب ایسا ممکن نہ ہو، کیونکہ اس بار مسلم لیگ بہرحال نواز شریف کے بغیر نہیں چل پائے گی، البتہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اس پر وہ بھی زیادہ دور نہیں جا سکیں گے اور بالآخر انہیں حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا اگر حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما سوچ سمجھ کر سیاست کریں، اور غداری کے الزامات سے اجتناب کریںں تو اپوزیشن کا مقابلہ کرسکتے ہیں، کرپشن کے مقدمات کے بجائے غداری کے مقدمات اپوزیشن کےلئے نئی زندگی کے مترادف ہوگا جس کا حکومتی حلقوں کواحساس کرنا ہوگا یعنی اس وقت دونوں صرف سے جو جذبات بلندیوں پر ہے ان کو نیچے لانا ہوگا اور اس ضمن میں نہ صرف حکومت پر بلکہ حزب اختلاف پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جب ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہے تو پھر اس عمل میں تاخیر خطرات اور خدشات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔