بیچلر اور ماسٹر پرائیویٹ کو خیرباد

اس تبدیلی میں بھی غریب طبقہ ہی رل گیا کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا معیارتعلیم عالمی معیار کے ہم پلہ ہو جائے بڑا عجیب وغریب مذاق ہے معیار بلند اور ہم پلہ کرنے کیلئے تو شعبہ تعلیم میں وسیع تر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے آیا بی اے اور ایم اے ختم کرنے سے کوئی تبدیلی واقع ہوگی؟ ہرگز نہیں البتہ یہ ضرور ہوگا کہ پسماندہ برسرروزگار لوگ یعنی مالی‘ چویدار‘ نائب قاصد اور ڈرائیور جیسے پسا ہوا غریب طبقہ مزید فروغ پائے گا ایسے لوگوں کی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی کمی نہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس ہزار روپے والی ماہانہ تنخواہ کی جاب کیساتھ ساتھ بی اے اور ایم اے پرائیویٹ کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں اس سے بہتر جاب مل سکے اب ایسے اور ایسے ہی دوسرے لاکھوں لوگوں کیلئے آگے بڑھنے اور اپنی حالت کار اور حالات زیست بدلنے کے راستے مسدود ہوگئے کیا یہ بات ارباب اختیار کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس ملک ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو میٹرک یا ایف اے کے بعد ناداری کے ہاتھوں معمولی سی جاب کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں اور ساتھ پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کرنے کی سعی بھی‘ ایسے لوگ اگر یہ استطاعت رکھتے کہ ریگولر طریق پر تعلیم حاصل کرسکے تو مالی‘ نائب قاصد چوکیدار یا جونیئر کلرک کے طورپر کیونکر کام کرتے؟ اس ملک کے پالیسی ساز یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جب تک قومی بجٹ کا زیادہ تر حصہ تعلیم اور صحت کیلئے مختص نہ ہو تب تک فروغ تعلیم ممکن ہے اور نہ ہی ایک صحت مند معاشرے کا قیام‘ تعلیم کی بدولت تو ان اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں جن کی اولین ترجیح تعلیم ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں پر ایسی جامعات بھی ہیں جن کا سالانہ بجٹ ہمارے قومی بجٹ سے اگر زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں ہوگا یہ وہ درسگاہیں ہیں جو ایجادات کرتی ہیں پالیسیاں بناتی ہیں اور جدید تحقیق کرکے انکے نتائج دنیا کے سامنے رکھ دیتی ہیں دوسری جانب ہماری یہ حالت ہے کہ برائے نام تعلیمی بجٹ کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں اور پنشن کی نذر ہو جاتا ہے اور جوبچ جاتا ہے اس سے کچھ کرنا اور کوئی نتیجہ اخذ کرنا بچوں کا کھیل رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمار ے تعلیمی اداروں میں طلباءکیلئے ہرسال داخلہ ٹیوشن فیسوں‘ امتحانات اور ہاسٹل چارجز میں اضافہ کیا جاتا ہے اور یوں حصول تعلیم غریب تو کیا متوسط طبقے کیلئے ایک خواب بن کررہ گیا ہے سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کمی کس چیز کی ہے؟ سب کچھ ہے مگر تعلیم کیلئے نہیں حکومتی پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں ایسے لوگ جو ملازم نہیں ہیں بلکہ خدمت کر رہے ہیں اور وہ بھی محض دس بیس یا زیادہ سے زیادہ تیس فیصد ووٹوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کی تنخواہوں اور الاﺅنسز میں مسلسل اضافے کیلئے تو پیسوں کی کوئی کمی نہیں مگر تعلیم کی حالت یہ ہے کہ اس کیلئے محض چارفیصد بجٹ مختص کرنا بھی ممکن نہیں ‘ ایسے میں معیار تعلیم کو عالمی معیار کے ہم پلہ بنانے کی باتیں عوام کو ورغلانے کے سوا کچھ نہیں اس ملک میں نادار ملازمت پیشہ لوگوں کیلئے آگے بڑھ کر زیست و روزگار میں بہتری لانے کا یہی ایک راستہ تھا کہ وہ اپنی معمولی نوکری کیساتھ ساتھ پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کرکے اپنے معیار زندگی بدل لیتے مگر اب تو وہ راستہ بھی ارباب اختیار اور سرکاری ماہرین تعلیم نے بند کردیا لہٰذا اب غریب لوگ صرف میٹرک اور ایف اے پر گزارہ کرتے ہوئے نچلی سطح کی جاب سے اپنے خاندان کیلئے دو وقت کی روکی سوکھی کمانے کی کوشش میں لگے رہیں گے کیونکہ ریگولر کلاسز والا بی ایس تو ان کے بس کی بات ہے ہی نہیں یہ بات نوٹ کرلیں کہ اس تبدیلی کا نتیجہ مستقبل قریب میں مزیدپسماندگی کی شکل میں ہمارے سامنے ہوگا حکمران اگر واقعی تبدیلی لانے میں مخلص ہوں تو تعلیم کو عام کریں بلکہ پیشہ ورانہ تعلیم کو ابتداءیا کم از کم پرائمری کی سطح سے لازمی کردیں اور سب سے ضروری یہ کہ تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرکے پروٹوکول اورپارلیمنٹرین پرخرچ ہونیوالے کاایک بڑا حصہ تعلیم‘ صحت‘ زراعت اور انرجی کیلئے مختص کردیں تاکہ آگے چل کر اس ملک میں حقیقی تبدیلی واقع ہو سکے پرائیویٹ اور ریگولر بی اے اور ایم اے کو ختم کرکے پوری قوم کیلئے بی ایس لازمی قرار دینے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی موجودہ وقت میں اگر کوئی تبدیلی نظرآتی ہے تو وہ یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں کے تعلیمی اخراجات پرائیویٹ اداروں سے زیادہ ہوگئے یونیورسٹیاں تنخواہیں نہ دینے کی پوزیشن کے باعث کنٹریکٹ غریب ملازمین کو فارغ کر رہی ہیں اور وہ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں جبکہ مالی ابتری کی وجہ سے ایڈمنسٹریٹو ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ کی بہت ساری آسامیاں خالی پڑی ہیں۔